دارالامان کاشانہ کا معاملہ

پیر 2 دسمبر 2019

Chaudhry Amer Abbas

چوہدری عامر عباس

دو دن سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت گردش کر رہی ہے جس میں افشاں لطیف نامی خاتون خود کو سرکاری دارالامان کاشانہ کی سپرنٹنڈنٹ بتاتی ہے اور یہ الزامات لگاتی ہے کہ اس کے محکمہ کے افسران اس پر بچیوں کی کم عمر میں شادی کروانے کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ میرے تک یہ ویڈیو میرے بیرون ملک مقیم ایک دوست کی وساطت سے پہنچی۔یہ ویڈیو وائرل ہونے سے قبل افشاں لطیف کو ٹرانسفر بھی کیا جا چکا تھا،کچھ صحافی دوستوں سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کچھ عرصہ قبل سے سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف کیخلاف مالی بے ضابطگی کی انکوائری بھی چل رہی ہے۔
یہ کاشانہ نامی دارالامان غالباً لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن میں واقع ہے جو عرصہ دراز سے محکمہ سوشل ویلفیئر پنجاب کے زیرِ انتظام چل رہا ہے.

افشاں لطیف اس دارالامان میں عرصہ تقریباً سات ماہ سے بطور سپرنٹنڈنٹ اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی. افشاں لطیف کے بقول تقریباً چار ماہ قبل جولائی کے مہینے میں اس کے محکمے کی ڈی جی افشاں کرن نے اسے کم عمر بچیوں کی جبری شادی کا کہا اور ساتھ میں یہ بھی حکم دیا کہ ان کے کمروں کو دارالامان کے اندر ہی سجایا جائے کیونکہ وہ بچیاں شادی کے بعد بھی دارالامان میں ہی رہیں گی۔

(جاری ہے)

افشاں لطیف کے بقول اس نے اپنی ڈائریکٹر جنرل کو ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور جولائی کے مہینے میں ہی اپنے محکمے کی سیکرٹری میڈم عنبرین کو زبانی اور تحریری شکایت بھی کی.

حالانکہ تصدیق کرنے پر پتہ چلا ہے کہ اس نوعیت کی کوئی بھی شکایت محکمہ میں موصول ہی نہ ہوئی ہے. جبکہ افشاں لطیف دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے پاس اس شکایت کی ایک کاپی موجود ہے لیکن تاحال اس نے یہ کاپی کسی بھی میڈیا کے نمائندے کیساتھ شیئر نہیں کی ہے. جب افشاں لطیف سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ شادیاں ہوئیں تو اس نے کہا کہ نہیں ہوئیں. اب یہ بات بھی افشاں لطیف کے مؤقف کو کمزور کر رہی ہے.

ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے قبل بھی کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا ہے جبکہ یہ دارالامان عرصہ دراز سے چل رہا ہے. افشاں لطیف یہ الزام بھی لگاتی ہے کہ ماہ جولائی میں ہی اس وقت کے سوشل ویلفیئر کے وزیر اجمل چیمہ نے اس کے دارالامان کے دفتر کا وزٹ کیا اور اس کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں اور کہا کہ تمہاری ٹرانسفر دور دراز علاقے میں کر دی جائے گی۔
اس حوالے سے جب اجمل چیمہ سے بات ہوئی تو انھوں نے ان تمام الزامات سے قطعی طور پر انکار کیا ہے.

انھوں نے کہا کہ وہ نہ تو افشاں لطیف کو جانتے ہیں اور نہ ہی کبھی کوئی ایسی بات ہوئی. انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ انھیں اس واقعہ کے متعلق صرف چار دن قبل معلوم ہوا ہے اور سن کر شدید دکھ ہوا ہے. انھیں تو پچیس نومبر تک اس محترمہ کی ٹرانسفر تک کا بھی علم نہیں تھا. اجمل چیمہ نے مزید کہا کہ اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ انکوائری ہونی چاہیے اور اصل حقائق کا کھوج لگایا جانا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف چھوٹی بچیوں کے مستقبل کا معاملہ ہے بلکہ ملک کی ساکھ کا بھی معاملہ ہے.

لہٰذا اس معاملے کی مکمل تہہ تک پہنچا جائے. 
خاکسار چونکہ ایک وکیل ہے. لہٰذا اس واقعہ کا تھوڑا سا تجزیہ کر لیتے ہیں. اگر عقلی طور پر سوچا جائے تو ایک وزیر عام طور پر کبھی بھی اس لیول پر نہیں جاتا کہ وہ اپنے محکمے کی ایک گریڈ سترہ کی ملازم کیساتھ براہ راست اس طرح کی گفتگو کرے. کیونکہ وزیر کے نیچے اس محکمے کا سیکرٹری ہوتا ہے پھر اسکے نیچے محکمے کا ایک پورا سیکریٹیریٹ ہوتا ہے.

وہ سیکریٹیریٹ پورے پنجاب میں جتنے بھی سوشل ویلفیئر کے ماتحت ادارے موجود ہیں ان کا انتظام و انصرام دیکھتا ہے. اس طرح کے معاملات چلانا اس محکمہ کے بیوروکریٹس کا کام ہوتا ہے. لہٰذا عام پریکٹس یہی ہے کہ ایک وزیر براہ راست ایک دارالامان میں جا کر اس کی منتظمہ کیساتھ اس طرح کی گفتگو کبھی نہیں کر سکتا. ویسے بھی افشاں لطیف کے بقول اس نے اپنے محکمہ کی ڈائریکٹر جنرل افشاں کرن کیخلاف شکایت کی تھی تو وزیر کا دارالامان وزٹ کرکے اس کی منتظمہ کو دھمکانا سمجھ سے بالاتر ہے.

دوسری بات یہ کہ بعض زرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ افشاں لطیف کے خلاف مالی بے ضابطگیوں کی کوئی انکوائری بھی چل رہی ہے. 
بہرحال جو بھی معاملہ ہے انتہائی تشویش ناک ہے اور الزامات بھی انتہائی سنگین ہیں. اصل حقائق کا تو انکوائری کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے. لہٰذا یہ ایک حساس معاملہ ہے اور مکمل اور غیر جانبدارانہ انکوائری کا متقاضی ہے.

اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے. پنجاب حکومت سے التماس ہے کہ فی الفور سینئر بیوروکریٹس اور سوشل ویلفیئر کے سینئر افسران پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو اس معاملے کی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ مکمل تحقیقات کرے. اس معاملے کی مکمل تہہ تک پہنچا جائے. تاکہ اس طرح کے واقعات آئندہ رونما نہ ہوں. 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :