کہیں دیر نہ ہو جائے۔۔۔

منگل 7 دسمبر 2021

Chaudhry Amer Abbas

چوہدری عامر عباس

سانحہ سیالکوٹ کی ویڈیوز نے اپنے دیکھنے والوں کے دماغ کو ماؤف کرکے رکھ دیا ہے. دماغ کیساتھ ساتھ دل کو دہلا دینے والی ویڈیو ہے جس کو دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے. دنیا کا کوئی مذہب اس طرح کسی انسان کو قتل کرنے یا لاش کو جلانے کی اجازت نہیں دیتا. ایسے واقعات کیلئے "مذمت" جیسا چھوٹا سا لفظ کوئی اہمیت نہیں رکھتا.
توہین رسالت کی سزا ایسے تھوڑا دی جا سکتی ہے؟ کیا خاتم النبیین، سید المرسلین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ طرزِ عمل ہے؟ قطعاً نہیں ہرگز نہیں.

آقا علیہ السلام تو رحمت اللعالمین بن کر آئے. اگر خدانخواستہ ایسا کوئی واقعہ پیش آتا بھی ہے تو اس کیلئے متعلقہ فورم میں شکایت کیجئے وہاں درخواست دیجئے. معاملہ کی مکمل انکوائری ہو کہ آیا توہینِ رسالت کا واقعہ پیش آیا بھی ہے یا نہیں. پاکستان ایک اسلامی ملک ہے. توہینِ رسالت کے واقعات میں کارروائی کیلئے پورا قانون و ضابطہ کار موجود ہے اور سخت سزا بھی موجود ہے.

لیکن جو گزشتہ روز واقعہ ہوا اس کی اسلام سمیت دنیا کا کوئی مذہب، قانون، معاشرت یا اخلاقیات قطعاً اجازت نہیں دیتے. اگر ایسا ہو جائے تو پھر کل کو تو کوئی آپ میں سے کسی پر بھی توہین رسالت کا الزام لگا کے گریبان پکڑ لے گا اور سڑکوں پر گھسیٹ کر جلا دے. ایسے رویے ایک شتر بے مہار معاشرے کو جنم دیتے ہیں.
جن دوستوں نے سری لنکا کا وزٹ کیا ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ سری لنکا ان چند ایک گنے چُنے ممالک میں سے ایک ہے جو پاکستانیوں کیلئے سوفٹ کارنر رکھتا ہے.

دنیا بھر میں پاکستان کا کیسا تاثر دیا جا رہا ہے. کل کے واقعہ سے پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے. ہم کیسے پتھر دل لوگ ہیں کہ یہ بھی نہ سوچاکہ سری لنکا دنیا کا واحد ملک ہے جو پاکستانیوں کو آنکھیں عطیہ کرتا ہے. سری لنکا اب تک بیس ہزار سے زائد پاکستانیوں کومفت آنکھیں فراہم کرچکا ہے اورجس دن اس کے شہری کو آگ لگا کر جلایا جا رہا تھا اس دن بھی ہم نے سری لنکاسے آنکھوں کا عطیہ وصول کیا۔

(جاری ہے)


یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے.

اگر ماضی میں نظر دوڑائیں تو ارض پاک کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات سیاہ ابواب کی صورت میں موجود ہیں. مسئلہ یہ ہے کہ ریاست کی رٹ اور قانون کی عملداری کہاں ہے. یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے. اس نوعیت کے بڑھتے ہوئے واقعات کے اصل محرکات تلاش کئے جائیں اور ان سے نمٹنے کیلئے ایک ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے.
سب سے پہلے تو حکومت کی زیر نگرانی تمام مکاتب فکر کے علماء کا ایک بورڈ بنایا جائے.

تمام علماء کرام شدت پسند نہیں ہیں. محض چند ایک کی وجہ سے بہت سے علماء کو ایک منصوبہ بندی کے تحت بدنام کیا جاتا ہے. بہر حال یہ ایک الگ موضوع ہے جس کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں. علماء کا یہ بورڈ توہین مذہب یا توہین رسالت جیسے واقعات کے سدباب کیلئے اپنی تجاویز ایک ہفتے کے اندر جمع کروائے.
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس معاملے پر سیر حاصل بحث کروائی جائے.

ایسے واقعات سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کیلئے الگ سے قانون سازی کرکے اس کے ضابطہ کار کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے. اس کیلئے ہر ضلع کی سطح پر تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے معتدل مزاج مزہبی سکالرز کا ایک بورڈ بنایا جائے جو متعلقہ دپٹی کمشنر کے ماتحت ہو. کسی بھی ضلع میں توہین رسالت کا اگر کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو کوئی بھی شخص فی الفور اپنی درخواست اس بورڈ میں جمع کروائے.

درخواست کے عمل کو آسان بنانے کیلئے ایک موبائل ایپلیکیشن بنانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں. علماء کے بورڈ کو جونہی شکایت موصول ہو وہ فوری طور پر اس معاملے کی تحقیقات شروع کرے. شہادتیں لے، متعلقہ لوگوں کے بیانات قلمبند کرے، شواہد اکٹھے کرکے اپنی ایک رپورٹ مرتب کرے. اگر وہ شکایت غلط ہو اور بدنیتی یا زاتی عناد پر مبنی ہو تو شکایت کنندہ کیلئے سزا تجویز کی جائے.

اگر ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہو تو ڈپٹی کمشنر کی طرف سے وہ شکایت بمع رپورٹ ڈسٹرکٹ سیشن جج کی عدالت میں یہ کیس ریفر کیا جائے جو اس معاملے کا ترجیحی بنیادوں پر ایک شفاف ٹرائل کرکے ایسے توہین رسالت کے مرتکب مجرم کو سخت سے سخت ترین سزا سنائے اس کیلئے زیادہ سے زیادہ نوے دن کا وقت دیا جائے.
توہینِ رسالت یا توہین مذہب ایک حساس معاملہ ہے. ایسے واقعات سے نمٹنے کیلئے مذہبی سکالرز کو آگے آ کر عوام کو آگاہی دینا ہوگی. ریاست کو اپنی رٹ قائم کرنا ہو گی، پیچیدگیوں کو دور کرکے قانون کو اپنا راستہ بنانا ہو گا. جلدی کیجئے کہیں دیر نہ ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :