
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا......
ہفتہ 19 ستمبر 2020

چوہدری عامر عباس
بعض بچے تعلیم کی غرض سے اپنے گھر سے دور اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں. معذرت کیساتھ آپ کو شاید میری بات سے اختلاف ہو لیکن میرے خیال میں یہ بھی درست رویہ نہیں. جنسی درندگی کے اکثر واقعات میں اپنے قریبی عزیز رشتہ دار ہی کسی نہ کسی طرح ملوث یا سہولت کار پائے گئے ہیں. برائے مہربانی اس معاملے میں کسی بھی رشتے دار پر اعتماد کرنے سے قبل ہر پہلو پر سوچ بچار کیجئے.
درسگاہوں کے اندر طلباء و طالبات اور اساتذہ کے جنسی ہراساں کرنے کے واقعات اکثر اخبارات کی زینت بنتے ہیں. سی جی پی اے میں اضافہ کیلئے اسائنمنٹ کی نمبرز گیم اس میں سب سے اہم محرک ہے. اس سلسلے میں بھی تعلیمی اداروں کو ایک مضبوط اور سخت میکنزم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ طالبات کے جنسی استحصال کو روکا جا سکے.
دنیا بھر کے تمام مذاہب منفی جنسی رجحانات کی نفی کرتے ہیں. لہٰذا نئی نسل کا اپنے مذاہب کی طرف میلان اور مذہبی تعلیمات پر عمل کرکے بھی جنسی درندگی جیسے واقعات میں کافی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے.
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سوشل میڈیا نے جس قدر تیزی سے ترقی کی ہے اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی. پچاس سال قبل فوت شدہ شخص اگر آج زندہ ہو کر دنیا میں آ جائے تو وہ یہ یقین نہیں کرے گا کہ یہ وہی دنیا ہے جسے وہ چھوڑ کر گیا تھا. جدید دور میں نت نئی ایجادات نے جہاں دنیا کی تیز رفتار ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے وہاں بہت سے منفی رجحانات کو بھی فروغ دیا ہے. اگر ہم یہ کہیں کہ اب ایک ٹچ فون کی صورت میں دنیا سمٹ کر آپکی مٹھی میں آ گئی ہے تو بیجا نہ ہو گا. ٹچ فون اور لیپ ٹاپ نے جہاں ہماری زندگیوں کو آسان کیا ہے وہیں انکے منفی استعمال نے بہت سے نقصانات بھی کئے ہیں جس میں عدم برداشت اور جنسی ہیجان میں اضافہ سر فہرست ہے. یہی ماضی میں چند سال کے دوران جنسی درندگی جیسے واقعات میں اضافے کا بہت بڑا سبب بھی ہے. پورن سے لیکر ہارر اور ماردھاڑ کی ویڈیوز تک ہر قسم کا مواد انٹرنیٹ پر موجود ہے جسے کسی بھی وقت کہیں بھی بیٹھ کر بآسانی دیکھا جا سکتا ہے. بچے جو ویڈیوز میں دیکھتے ہیں نتائج سے بےخبر رہتے ہوئے وہی حقیقی زندگی میں عملی طور پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ ایک خطرناک رجحان بھی ہے. موجودہ دور میں ٹچ فون اور لیپ ٹاپ ناگزیر ہو گیا ہے. سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے. لہٰذا یہاں بھی والدین اور ہمارے اساتذہ کی زمہ داری بہت ذیادہ بڑھ جاتی ہے. والدین اپنے بچوں کی سوسائٹی اور دیگر اس نوعیت کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں. حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بلاوجہ روک ٹوک کی بجائے بچے کو پیار سے سمجھائیں. تعلیمی اداروں میں اساتذہ بھی اس میں اپنا کردار ادا کریں. ہمارے میڈیا کو بھی چاہیے کہ مثبت رجحانات کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کرے. حکومت کی شراکت داری کیساتھ ایسے ڈرامے، ڈاکومینٹریز اور فلمیں بنائی جائیں کہ جو نہ صرف بچے کی کردار سازی میں معاون ہوں بلکہ ہماری منفی سماجی رویوں میں تبدیلی کا باعث بھی بنیں�
(جاری ہے)
�
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
چوہدری عامر عباس کے کالمز
-
کہیں دیر نہ ہو جائے۔۔۔
منگل 7 دسمبر 2021
-
ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا۔۔۔۔
جمعہ 15 اکتوبر 2021
-
اس حال میں جینا محال ہے
منگل 3 اگست 2021
-
جن، بُھوت اور سایہ کا ایک علاج یہ بھی ہے
پیر 2 اگست 2021
-
حصول انصاف میں تاخیر.....
ہفتہ 31 جولائی 2021
-
اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجئو۔۔۔۔
جمعہ 23 جولائی 2021
-
وراثت کا مسئلہ
منگل 13 جولائی 2021
-
پہلی بار لاہور آمد اور نیشنل کالج آف آرٹس کی سیر....
جمعرات 8 جولائی 2021
چوہدری عامر عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.