ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا......

ہفتہ 19 ستمبر 2020

Chaudhry Amer Abbas

چوہدری عامر عباس

اپنے گزشتہ کالم میں راقم الحروف نے جنسی درندگی جیسے تشویشناک حد تک بڑھتے ہوئے واقعات میں کمی لانے کیلئے بچوں کی جنسی تعلیم و تربیت پر سیر حاصل بحث کے علاوہ دیگر چند ایک اہم محرکات پر بات کی. چونکہ یہ موضوع بہت اہم ہے اور طویل بحث کا متقاضی ہے لہذا حالیہ کالم بھی گزشتہ کالم ہی کا تسلسل ہے. سب سے پہلے میں ایک ایسے محرک پر بات کروں گا جس سے اکثر والدین صرف نظر کرتے ہیں.

جدید دور مقابلہ کا دور ہے. مستقبل میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے بچے اور بچی دونوں کیلئے جدید ترین تعلیم ازحد ضروری ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے. ہر والدین کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ یا بچی اچھے کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرے جس کیلئے اکثر بچے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں. دور دراز سے آئے ہوئے بچوں کو گھر سے باہر سرکاری یا پرائیویٹ ہاسٹلز میں رہنا پڑتا ہے جو والدین کیساتھ ساتھ بچوں کیلئے بھی بہت بڑا چیلنج ہے.

اگرچہ گھر سے باہر رہ کر بچے میں احساس زمہ داری بڑھتا ہے جو کہ ایک مثبت پہلو بھی ہے لیکن بچوں کی یہ عمر بھی بہت نازک ہوتی ہے جس میں بچوں کا زہن بالکل ناپختہ ہوتا ہے اسے جدھر چاہیں بہت آسانی سے موڑا جا سکتا ہے. لہٰذا گھر کے پابند ماحول سے اچانک پابندیوں سے آزاد ماحول میں آنے والے بچے کئی بار غلط سوسائٹی کی نزر ہو جاتے ہیں. دنیا کی رنگینیاں انھیں اپنی جانب بآسانی مائل کر لیتی ہیں اور وہ اپنے اصل مقصد سے بھٹک جاتے ہیں.

ہر بچے کیساتھ ایسا نہیں ہوتا لیکن کافی بچوں کیساتھ ایسا پایا گیا ہے. والدین اپنی دانست میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ انکا بچہ یا بچی پڑھ رہے ہیں لیکن انھیں یہ معلوم تک نہیں پڑتا کہ انکا بچہ یا بچی کن مسائل سے دوچار ہیں. اپنی پروفیشنل لائف کے دوران کئی بار خاکسار کے مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ امر بھی جنسی رجحان کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے.

اس سلسلے میں بچوں کے والدین کی زمہ داری بڑھ جاتی ہے. جس بچے کو ہاسٹل میں بھیجنا ہے اسے ایک سال پہلے ہی اس کیلئے مکمل طور پر تیار کیجئے. ہاسٹل لائف میں درپیش چیلنجز اور تمام اچھے برے پہلوؤں سے روشناس کروائیں. بچوں کو انکی زندگی کا مقصد تفصیل سے بتائیں. انکو خود اعتمادی دیجئے. میں تو یہ کہتا ہوں کہ آج کے بچوں کو ہاسٹلز میں بھیجنے سے پہلے کم از کم چھ ماہ تک کسی اچھے ماہر نفسیات سے مختلف اوقات میں سیشنز کروائیں جو انکو گھر سے باہر کالج/یونیورسٹی اور ہاسٹلز میں پیش آنے والے چیلنجز بارے بتائے اور یہ بھی رہنمائی کریں کہ انھوں نے کس طرح ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونا ہے.

کونسی سوسائٹی انکے لئے اچھی ہے اور کونسی بری، کس طرح اپنے اصل مقصد یعنی اپنے تعلیمی کیریئر پر فوکس کرنا ہے، اپنے اساتذہ کیساتھ کس طرح کا رویہ رکھنا ہے. آج کے ماحول کو اگر مدنظر رکھیں تو یہ ازحد ضروری ہے. بچوں کو اعتماد دیجئے کہ وہ اپنی ہر بات آپ کے ساتھ شئیر کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں. اپنے ہاسٹلز میں رہنے والے بچوں پر خصوصی نظر رکھئیے اور وقتاً فوقتاً انکی رہنمائی کیجئے.
بعض بچے تعلیم کی غرض سے اپنے گھر سے دور اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں.

معذرت کیساتھ آپ کو شاید میری بات سے اختلاف ہو لیکن میرے خیال میں یہ بھی درست رویہ نہیں. جنسی درندگی کے اکثر واقعات میں اپنے قریبی عزیز رشتہ دار ہی کسی نہ کسی طرح ملوث یا سہولت کار پائے گئے ہیں. برائے مہربانی اس معاملے میں کسی بھی رشتے دار پر اعتماد کرنے سے قبل ہر پہلو پر سوچ بچار کیجئے.
درسگاہوں کے اندر طلباء و طالبات اور اساتذہ کے جنسی ہراساں کرنے کے واقعات اکثر اخبارات کی زینت بنتے ہیں.

سی جی پی اے میں اضافہ کیلئے اسائنمنٹ کی نمبرز گیم اس میں سب سے اہم محرک ہے. اس سلسلے میں بھی تعلیمی اداروں کو ایک مضبوط اور سخت میکنزم بنانے کی ضرورت ہے تاکہ طالبات کے جنسی استحصال کو روکا جا سکے.
دنیا بھر کے تمام مذاہب منفی جنسی رجحانات کی نفی کرتے ہیں. لہٰذا نئی نسل کا اپنے مذاہب کی طرف میلان اور مذہبی تعلیمات پر عمل کرکے بھی جنسی درندگی جیسے واقعات میں کافی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے.


گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سوشل میڈیا نے جس قدر تیزی سے ترقی کی ہے اسکی ماضی میں مثال نہیں ملتی. پچاس سال قبل فوت شدہ شخص اگر آج زندہ ہو کر دنیا میں آ جائے تو وہ یہ یقین نہیں کرے گا کہ یہ وہی دنیا ہے جسے وہ چھوڑ کر گیا تھا. جدید دور میں نت نئی ایجادات نے جہاں دنیا کی تیز رفتار ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے وہاں بہت سے منفی رجحانات کو بھی فروغ دیا ہے.

اگر ہم یہ کہیں کہ اب ایک ٹچ فون کی صورت میں دنیا سمٹ کر آپکی مٹھی میں آ گئی ہے تو بیجا نہ ہو گا. ٹچ فون اور لیپ ٹاپ نے جہاں ہماری زندگیوں کو آسان کیا ہے وہیں انکے منفی استعمال نے بہت سے نقصانات بھی کئے ہیں جس میں عدم برداشت اور جنسی ہیجان میں اضافہ سر فہرست ہے. یہی ماضی میں چند سال کے دوران جنسی درندگی جیسے واقعات میں اضافے کا بہت بڑا سبب بھی ہے.

پورن سے لیکر ہارر اور ماردھاڑ کی ویڈیوز تک ہر قسم کا مواد انٹرنیٹ پر موجود ہے جسے کسی بھی وقت کہیں بھی بیٹھ کر بآسانی دیکھا جا سکتا ہے. بچے جو ویڈیوز میں دیکھتے ہیں نتائج سے بےخبر رہتے ہوئے وہی حقیقی زندگی میں عملی طور پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ ایک خطرناک رجحان بھی ہے. موجودہ دور میں ٹچ فون اور لیپ ٹاپ ناگزیر ہو گیا ہے. سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے.

لہٰذا یہاں بھی والدین اور ہمارے اساتذہ کی زمہ داری بہت ذیادہ بڑھ جاتی ہے. والدین اپنے بچوں کی سوسائٹی اور دیگر اس نوعیت کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں. حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بلاوجہ روک ٹوک کی بجائے بچے کو پیار سے سمجھائیں. تعلیمی اداروں میں اساتذہ بھی اس میں اپنا کردار ادا کریں. ہمارے میڈیا کو بھی چاہیے کہ مثبت رجحانات کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کرے. حکومت کی شراکت داری کیساتھ ایسے ڈرامے، ڈاکومینٹریز اور فلمیں بنائی جائیں کہ جو نہ صرف بچے کی کردار سازی میں معاون ہوں بلکہ ہماری منفی سماجی رویوں میں تبدیلی کا باعث بھی بنیں�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :