مفتی صاحب پر تنقید کیوں؟

ہفتہ 19 جون 2021

Chaudhry Amer Abbas

چوہدری عامر عباس

آج بائیک پر ایک عزیز کے ہاں جا رہا تھا. مجھے پتہ نہ چلا کہ اچانک میری بائیک تھوڑا تیز رفتاری کیساتھ جب کیچڑ میں سے گزری تو بس اسٹاپ پر کھڑے ایک بزرگ کے کپڑوں پر کیچڑ کے کچھ چھینٹے پڑ گئے. مجھے شرمندگی سی ہوئی تو میں نے تھوڑی آگے جا کر بائیک روکی. اتر کر ان بزرگ کے پاس آیا اور معذرت خواہانہ نظروں سے دیکھنے لگا. میرے بات کرنے سے پہلے ہی بزرگ نے کہا "شکل سے پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہو لیکن اپنی حرکتوں سے بالکل جاہل لگے ہو".

میں خاموش رہا کیونکہ غلطی میری تھی. وہ ساتھ کھڑے شخص سے کہنے لگے "میں نے آج نماز جمعہ بھی پڑھنی ہے اب مجھے گھر جا کر کپڑے بدلنے پڑیں گے". میں نے معذرت کی کیونکہ غلطی میری تھی. معاملہ رفع دفع ہو گیا.
مجھ سمیت تقریباً ہر شخص کو ایسی یا اسی نوعیت کی صورتحال کا اکثر اوقات سامنا کرنا پڑتا ہے. یہ معمول کی بات ہے. آپ جس مقام پر ہوتے ہیں لوگوں کی آپ سے توقعات بھی اسی کیمطابق ہوتی ہیں.

بلکہ آپ جس منصب پر فائز ہوتے ہیں آپ سے توقعات اس سے کہیں زیادہ اونچی رکھی جاتی ہیں. مجھے تھوڑا تھوڑا یاد ہے یا وکلاء دوست شاید اسکی تصدیق کر دیں گے کہ چند برس قبل ایک جج صاحب کو محض ایک معمولی نوعیت کی غلطی کی بناء پر نوکری سے فارغ کر دیا گیا. حالانکہ یہ ایک معمولی نوعیت کی غلطی تھی لیکن یہ کام ایک جج کے شایان شان نہیں تھا. ایک عام شخص کی نسبت ایک پڑھا لکھا شخص اگر گالی دے تو اس پر تنقید زیادہ کی جائے گی.

اس کی سادہ سے الفاظ میں مثال یوں لے لیجئے کہ ایک عام شخص کی نسبت ڈاکٹر کی غفلت پر زیادہ شدت سے تنقید کی جاتی ہے. ایک ناخواندہ شخص کی نسبت ایک پڑھے لکھے شخص سے اخلاقیات کی توقع زیادہ کی جاتی ہے. کسی قانون کی خلاف ورزی پر عام شخص کی نسبت ایک وکیل پر زیادہ شدت سے تنقید ہوتی ہے کیونکہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ قانون شکنی نہیں کرے گا. یہی وجہ ہے کہ جب جب کوئی وکیل اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے تب تب اس کو پوری شدت سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے.

اسی بناء پر وکلاء پر دوسروں کی نسبت زیادہ تنقید ہوتی ہے کیونکہ سوسائٹی میں انکا ایک مقام ہے لوگوں کی توقعات ہیں جن پر انھیں پورا اترنا چاہئے. یہ ایک فطری امر ہے اور یہ ہونا بھی چاہئے. کیونکہ ایسے معاملات میں دفاع ہو ہی نہیں سکتا. بعض یونیورسٹیوں اور کالجز میں مختلف غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر پھیلی فحاشی اور عریانی پر میں ہمیشہ سے وقتاً فوقتاً بات کرتا رہا ہوں.

ایک کالم بھی لکھا تھا جب چند ماہ قبل ایک بدکردار شخص ایک سٹوڈنٹ لڑکی کی لاش ہسپتال کے باہر چھوڑ کر چلا گیا تھا. اس کے علاوہ اس جیسے جتنے بھی واقعات ہوئے ان پر ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے یک زبان ہو کر پوری شدومد کیساتھ آواز بلند کی گئی. علماء کرام بھی اس فحاشی پر بات کرتے رہتے ہیں اور کرنی چاہئے بلکہ ہر شخص کو کرنی چاہئے کیونکہ اگر اس پر بات نہ کی جائے تو شاید حالات بہت آگے نکل جائیں اور ہماری بہنوں بیٹیوں کیلئے پڑھنا ہی دشوار ہو جائے.
اب دو روز قبل ہونے والے مفتی صاحب کے واقعہ کی طرف آتے ہیں جو پے در پے چار عدد پورن ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں.

اس پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے اور تنقید ہونی بھی چاہئیے. جن دوستوں کو یہ اعتراض ہے کہ ایسے واقعات تو ہر کمیونٹی میں ہوتے ہیں اور اکثر ہوتے رہتے ہیں تو اس حالیہ واقعہ پر عوام کی طرف سے اتنی شدید تنقید کیوں؟ کچھ دوست تو مفتی صاحب کے اس قبیح فعل کی ایسی عجیب و غریب توجیہات پیش کر رہے ہیں کہ میں انگشت بدنداں ہوں.

یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ وہ یہ سمجھنے ہیں کہ لبریز اپنے بغض کی وجہ سے اس واقعہ کو ہوا دے رہے ہیں. وقتی طور پر مان لیتے ہیں کہ وہ اپنے تئیں درست سوچ رہے ہوں گے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے. ان دوستوں کیلئے عرض ہے کہ مفتی صاحب پر تنقید زیادہ ہونے کی وہی وجوہات ہیں جو میں نے اوپر بیان کیں. یہ عوام الناس کی توقعات ہیں. علماء کی اکثریت بہت نیک اور متقی ہیں. دین دار علماء دین کو چاہیے کہ بلا چوں چرا، بغیر کسی موازنے، بغیر کسی کو لتاڑے اس قبیح اور غلیظ فعل کی مذمت کریں. علماء دین کو چاہیے کہ وہ خود آگے آئیں. اپنا محاسبہ کریں اور ایسے گند کو صاف کریں جو بدنامی کا باعث بن رہے ہیں�

(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :