کزن میرج کا مسئلہ.....

بدھ 7 جولائی 2021

Chaudhry Amer Abbas

چوہدری عامر عباس

میڈیکل سائنس کی متعدد مصدقہ ریسرچز کے بعد یہ نتیجہ احذ کیا گیا ہے کہ بیشمار بیماریاں ایسی ہیں جو موروثی طور پر نسل در نسل ٹرانسفر ہو رہی ہیں اور پیدا ہونے والے بچوں کو بہت پیچیدہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور والدین کیلئے معاشی اور ذہنی مسائل الگ سے ہوتے ہیں لہٰذا جس حد تک ممکن ہو کزنز میرج سے بچا جائے بلکہ خاندان سے باہر شادی کے رجحان کو فروغ دیا جائے.

اب میری اس پوسٹ کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ کزنز میرج خدانخواستہ حرام ہو گئی ہے. آقا علیہ السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی اپنی کزنز سے شادیاں فرمائی اس سے قطعی طور پر انکار ممکن ہی نہیں ہے.

(جاری ہے)

کزن میرج کو حرام قطعاً نہیں کہا جا سکتا بلکہ بعدازاں پیش آنے والے خطرناک مسائل سے بچنے کیلئے حفط ماتقدم کے طور پر صرف احتیاطاً روکا جا رہا ہے.

اس کی مثال اس طرح سے دی جا سکتی ہے کہ میٹھا کھانا قطعاً حرام نہیں ہے بلکہ سنت نبوی ہے. لیکن شوگر کے مریض کو احتیاطاً میٹھا کھانے سے سختی سے منع کر دیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں شوگر کی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے اور بہترین زندگی گزاری جا سکے، اسی طرح نمک ایک حلال شے ہے لیکن بلڈ پریشر کے مریض کو نمک والی اشیاء کھانے سے منع کر دیا جاتا ہے.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک صحابی کو فرمایا؛ انصاری عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے، کیا دیکھا ہے؟ عرض کیا نہیں، تو فرمایا؛ انصار کی آنکھوں میں پرابلم ہوتی ہے، دیکھ بھال کر شادی کرنا.

(صحیح مسلم، باب ندب النظر الی وجہ المراۃ وکفیھا لمن یرید تزوجھا ؛ 1424)
اکثر انصار کی آنکھوں میں پرابلم ہونا یقینا جینیاتی مرض تھا. اگر آنکھوں کی جینیاتی بیماری کی بنا پر شادی سے روکا جا سکتا ہے تو پھر اس سے بھیانک جینیاتی معذوری کی بنا پر کیوں شادی سے احتیاط کا نہیں کہا جا سکتا؟
اوپر کی گئی ساری بحث کا مقصد صرف آپ کو سمجھانا تھا پلیز اس کو دین سے ہرگز نتھی نہ کیا جائے. میرا حدیث بیان کرنے کا مقصد صرف آپ کو یہ بتانا تھا کہ اسلام بھی ایسے معاملات میں احتیاط کی ہی تلقین کرتا ہے. لیکن اس سب کے باوجود اگر پھر بھی کوئی کزنز میرج کرنا چاہتا ہے تو وہ بیشک کر سکتا ہے، اسلامی و اخلاقی طور پر قطعاً کوئی قدغن نہیں ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :