اے پی سی......چیئرمین سینیٹ

ہفتہ 13 جولائی 2019

Dr Faisal Haneef

ڈاکٹر فیصل حنیف

 عمومی طور پر سیاسی جماعتیں مختلف سیاسی نظریات کے ساتھ آتی ہیں اور پھر انہیں سیاسی نظریات کی بنیاد پر الیکشن لڑتی ہیں۔کوئی حکومت میں آجاتی ہیں اور کچھ اپوزیشن میں آکر مخالف کے سیاسی نظریات کی تنقید کرتی ہیں لیکن جب کوئی ملکی مسائل ایسے بن جائیں، کوئی قدرتی ناگہانی آفات آ جائیں، جنگ یا دہشتگردی جیسے ملکی سالمیت کے مسائل ہوں تو یہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو ختم کر کے ایک ٹیبل پر بیٹھتی ہیں اور موجودہ بحران سے نمٹنے کیلئے حل تالاش کرتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے یوں اکٹھے ہونے کو کل جماعتی کانفرنس کہتے ہیں۔ما ضی میں ہمیں کئی ایسی مثالیں ملتی جن میں بڑے اور شدید سیا سی مخالف ملکی بہتری کے لئے ایک میز پر آئے۔
 مثلاً تاریخ میں بھٹو اور مفتی محمود، بے نظیر اور نواز شریف، نواز شریف اورزرداری حتی کہ عمران خان اور نواز شریف بھی سانحہ اے پی ایس کے بعد کل جماعتی کانفرنس کا حصہ رہے۔

(جاری ہے)

موجودہ سیاسی اور اقتصادی بحران کے تناظر میں بھی 26 جون کو متحدہ اپوزیشن کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں ایک اے پی سی کی گئی جس میں 8 سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔(آج کل تاریخ میں پہلی بار مولانا صاحب نا کسی حکومت کا حصہ ہیں بلکہ اسمبلی سے بھی باہر ہیں)۔اے پی سی میں شہباز شریف، مریم نواز اور بلاول نے شرکت کی۔اس اے پی سی کا مقصد ملکی صورتحال سے قطع نظر ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو کیسسز سے نکالنے کے لیے کوئی لائحہ عمل سوچنا تھا۔

مریم نواز اور فضل الرحمان کا موقف تھاکہ اسمبلیوں سے استعفی دیا جائے اور مڈٹرم انتخابات کی طرف جایا جائے لیکن کسی بات پر اتفاق نا ہوا اور اپوزیشن کا ایجنڈا فلاپ ہوتا نظر آیا۔اے پی سی کا ایک اعلامیہ بھی جاری ہوا۔اعلامیہ میں آئیں شائیں کے علاوہ ایک بات تھی،وہ تھی چیئرمین سینٹ کو ہٹانایہ ایک بہت مضحکہ خیز بات ہے، یہ اسطرح ہے جب آپ کسی کا لڑائی میں کچھ نا بگاڑ سکیں بس دشمن کے سامنے ایک ہلکی سی دل میں گالی دے اور بھاگ جائیں۔

اس دعوے میں کتنا دم ہے اسکے لئے کچھ فگرز پر نظر ڈالیں تو اس وقت سینٹ میں متحدہ اپوزیشن کا نمبر 64حکومت اور اتحادی کا نمبر 40ہے گویا اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی پوزیشن میں ہے لیکن فرض کریں اگر چیئرمین سینیٹ کو ہٹا بھی دیا جائے تو اسے کیا اپوزیشن کو کوئی فائدہ ہوگا؟ جواب نہیں!
کیا چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے سے عمران خان یا حکومت کونقصان ہو گا؟ جواب نہیں! اس معاملے کو سوائے میڈیا میں چند ہفتے پزیرائی کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

نا اس سے موجودہ سیاسی منظر میں کوئی فرق ہو گا۔ اس ہفتے سینیٹ میں چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی جس میں 38 سینیٹرز کے دستخط موجود ہیں اور اب تو اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے ایک نئے نام پر بھی اتفاق کر لیا ہے۔چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے اور نیا چیئرمین لانے میں قریباً 1،2 مہینے لگ جائیں گے،نیا چیئرمین میرے خیال سے صرف 16 مہینے کے لیے آئے گا کیونکہ مارچ 2021 میں 50 فیصد سینیٹ کی نشستوں پر پھر الیکشن ہو گا اور حکومت اور اتحادی تقریباً 65 فیصد نشستوں کی دسترس حاصل کر لیں گے۔گویا اپوزیشن، حکومت اور پاکستان کو اس چیئرمین سینیٹ کے جانے سے کو فائدہ یہ نقصان نہیں ہوگا بہرحال یہ میڈیا کے لیے چند دن کا قصہ ضرور ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :