
”پب جی“ گیم اور پنکھے سے جھولتی لاشیں
جمعہ 26 جون 2020

ڈاکٹر جمشید نظر
(جاری ہے)
آخری گیم کا کہہ کر وہ مسلسل کھیلتا جارہا تھا،موبائل کی بیٹری بھی اس کی گیم کو نہ رکوا سکی کیونکہ چارجر کی تار بھی مسلسل موبائل کو لگی ہوئی تھی تاکہ گیم کھیلتے ہوئے کوئی خلل نہ پڑے۔
تنگ آکر باپ نے بیٹے کو سختی سے ڈانٹتے ہوئے گیم بند کرنے کو کہا اورآئندہ ”پب جی “گیم کھیلنے پر بھی پابندی لگادی۔بیٹے نے باپ کی ڈانٹ سے ڈرتے مجبورا گیم بند کردی لیکن ”پب جی “ آئندہ نہ کھیلنے کی پابندی اس کے لئے ایسی تھی جیسے کسی نے اس کا قرار،اس کا چین چھین لیا ہو۔دل میں غصہ لئے بیٹا کچھ کھائے پیئے بغیرہی اپنے کمرے میں سو گیا،ماں نے لاکھ منانا چاہا بیٹا نہ مانا،آخراس امید پر بستر کے پاس رکھی میز پر کھانا رکھ دیا کہ ابھی غصہ ختم ہوگا تو کھا لے گا ۔صبح جب ماں بیٹے کو ناشتہ کے لئے اٹھانے کمرے میں گئی تو چیخیں مار کر بے ہوش ہوگئی۔یہ سن کر باپ ،بیٹے کے کمرے کی طرف لپکا،جوبھیانک منظر اس نے دیکھا وہ دنیا کے کسی بھی باپ کے لئے قیامت سے کم نہ تھا،پنکھے پر اس کے بیٹے کی لاش جھول رہی تھی اس کے ہاتھوں نے اب بھی موبائل تھام رکھا تھا جس پر گیم ”پب جی“ چل رہی تھی۔یہی قیامت خیز منظر دیکھ کر اس کی ماں بے ہوش ہوکر زمین پر گری پڑی تھی۔باپ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ پنکھے سے جھولتی بیٹے کی لاش کو سہارا دے کر نیچے اُتارے یا زمین پر بے ہوش بیوی کواُٹھائے،اس غیر یقینی صورتحال سے وہ دیوانہ سا ہوگیا۔وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس کے بیٹے نے ساری زندگی نہ بھلانے والا غم کیوں دے دیا ہے۔واقعہ دیکھ کرمحلہ داروں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں،کوئی بولا” باپ کی ڈانٹ سے دلبرداشتہ بیٹے نے یہ قدام اُٹھایا ہے“ تو دوسرا بولا ”پب جی “ گیم ہارنے پراس نے اپنی جان کی بازی ہار دی ہے“۔پنکھے سے لٹکی لاش اور موبائل پر آن”پب جی“ گیم اس بات کا اشارہ دے رہے تھے کہ بیٹے نے باپ کی حکم عدولی کرکے پھر گیم کھیلنا شروع کردیا اور شائد گیم میں ہارنے کا غم اس کی خود کشی کا سبب بنا۔
حال ہی میں لاہور میں خود کشی کے دو ایسے ہی دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہوئے جن میں والدین نے اپنے بیٹے کو صرف ”پب جی “ گیم کھینے سے منع کیا تھا۔”پب جی“ گیم کے باعث ہونے والے خود کشی کے یہ واقعات اگرچہ نئے نہیں ہیں لیکن چار روز میں دو خود کشیاں اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھیں کہ یہ گیم ایک تفریحی گیم نہیں بلکہ ایک قاتل گیم بن چکی ہے جسے کھیلنے والا گیم کے اینیمیٹڈ کرداروں کو مارتے مارتے اس قدر نفسیاتی وابستگی پیدا کر لیتا ہے کہ آخر کار حقیقت میں اپنی جان بھی یہ سمجھ کر گنوا دیتا ہے کہ شائد زندگی بھی گیم کی طرح دوبارہ پھرسے شروع ہوجائے گی۔
ماہرین صحت کے مطابق ایکشن ،مار دھاڑ پر مبنی آن لائن گیمز بچوں اور نوجوانوں میں بے شمار نفسیاتی و جسمانی تبدیلیاں پیدا کر رہی ہیں ۔ان گیمز کی وجہ سے نفسیاتی بیماریاں اور خود کشی کے واقعات بڑھنے لگے ہیں۔پب جی گیم سے قبل بھی کچھ آن لائن گیمز ایسی آچکی ہیں جن کو کھیلتے ہوئے دنیا بھر میں ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں جن میں ” پوکی مون گو“ اور ””بلیو وہیل“ سر فہرست ہیں جبکہ آج کل ”فری فائر“ گیم بھی بہت کھیلی جارہی ہے۔ان گیمز سے ہونے والی ہلاکتوں کے بعد دنیا بھرمیں کہیں مکمل پابندی لگادی گئی ہے تو کہیں آن لائن گیمز کی حد مقرر کرنے پر زوردیا جارہا ہے ۔پاکستان میں بچوں اور نوجوان نسل کی زندگیوں کو بچانے کے لئے ان خطرناک آن لائن گیمز پر فوری پابندی لگنی چاہئے ، نہیں توان گیمز کو کھیلتے کھیلتے ایسے ذہن تیار ہوجائیں گے جوخدانخواستہ ملک کو ایک” BATTLE GROUND“ بنا دیں گے جہاں صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے”دوسروں کو مارنا یا مر جانا“۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر جمشید نظر کے کالمز
-
محبت کے نام پر بے حیائی
بدھ 16 فروری 2022
-
ریڈیو کاعالمی دن،ایجاد اور افادیت
منگل 15 فروری 2022
-
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاک فوج کی کارروائیاں
جمعرات 10 فروری 2022
-
کشمیری شہیدوں کے خون کی پکار
ہفتہ 5 فروری 2022
-
آن لائن گیم نے بیٹے کو قاتل بنا دیا
پیر 31 جنوری 2022
-
تعلیم کا عالمی دن اور نئے چیلنج
بدھ 26 جنوری 2022
-
برف کا آدمی
پیر 24 جنوری 2022
-
اومیکرون،کورونا،سردی اور فضائی آلودگی
جمعہ 21 جنوری 2022
ڈاکٹر جمشید نظر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.