27سال قیدبامشقت کاٹنے والا صدربن گیا

جمعرات 16 جولائی 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

کون جانتا تھا جنوبی افریقہ کی جیل میں ستائیس سال قید بامشقت کاٹنے والا ایک عام سیاہ فام اسی ملک کا پہلا جمہوری صدر بن جائے گا۔یہ اعزازآنجہانی نیلسن منڈیلا کو حاصل ہوا ہے جو 1994 ء سے 1999ء تک پانچ سال جنوبی افریقہ کے صدر رہے ۔صدر منتخب ہونے سے پہلے تک نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے کٹر مخالف اور افریقی نیشنل کانگریس کی فوجی ٹکڑی کے سربراہ بھی رہے۔

جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں سے برتے جانے والے نسلی امتیاز کے خلاف انھوں نے تحریک میں بھرپور حصہ لیا جس پر جنوبی افریقہ کی عدالتوں نے انھیں قید با مشقت کی سزا سنائی۔ نیلسن منڈیلا اسی تحریک کے دوران لگائے جانے والے الزامات کی پاداش میں تقریباً 27 سال پابند سلاسل رہے، انھیں جزیرہ رابن پر قید رکھا گیا۔

(جاری ہے)

11 فروری 1990ء کو جب وہ رہا ہوئے تو انھوں نے تحریک کو خیر باد کہہ کہ مذاکرات کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا جس کی بنیاد پر جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کو سمجھنے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد حاصل ہوئی۔

نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کے خاتمے کے بعد نیلسن منڈیلا کی تمام دنیا میں پذیرائی ہوئی جس میں ان کے مخالفین بھی شامل تھے۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کو ''ماڈیبا'' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو منڈیلا خاندان کے لیے اعزازی خطاب ہے۔
نیلسن منڈیلا 18 جولائی 1918ء میں ترانسکی، جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے دنیا کے ساڑھے سات ارب سے زائد انسانوں میں نیلسن منڈیلا وہ واحد شخصیت ہیں جن کا جنم دن اقوام متحدہ ایک عالمی دن کے طور پر مناتا ہے ۔

اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ نے 2009ء میں کیا تھا۔عالمی منڈیلاڈے منانے کا مقصد لوگوں کو اس بات کی ترغیب دینا ہے کہ وہ اپنے آس پاس لوگوں کی خدمت کریں بلکل اسی طرح جیسے نیلسن منڈیلانے سیاہ فام کے حقوق کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔ چار دہائیوں پر مشتمل سیاہ فام کے حقوق کی پرامن تحریک و خدمات کی بنیاد پر انھیں 250 سے زائد انعامات سے بھی نوازا گیا جن میں سب سے قابل ذکر 1993ء کا نوبل انعام برائے امن ہے۔


نیلسن منڈیلا کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اقوام متحدہ ہر پانچ سال بعد دنیا بھر سےانسانیت کی خدمت اور معاشرتی ترقی کے لئے نمایاں کارکردگی انجام دینے والے ایک مرد اور ایک خاتون کو نیلسن منڈیلا ایوارڈ دیتا ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے پہلی مرتبہ 2015ء نیلسن منڈیلا ایوارڈز دیئے گئے جبکہ پانچ سال بعد اب اس سال 2020 ء میں بھی ایک مرد اور ایک خاتون کو یہ ایوارڈ دیا جائے گا۔

2015 ء میں نیلسن منڈیلا کے عالمی دن کے حوالے سے ایک تقریب کے دوران نیمبیا کی ایک خاتون آپتھامالوجسٹ ڈاکٹر ہیلینا کو آنکھوں کے امراض میں مبتلا تیس ہزارمریضوں کے مفت آپریشنز اور دیگر فلاحی کام کرنے پر دیا گیا،جبکہ مرد کیٹیگری میں یہ ایوارڈ پرتگال کے اٹھارہویں صابق صدر جارج فرنینڈو برانکو ،کوپرتگال میں آمریت کے خاتمے،جمہوریت کو فروغ اور اس کے قیام کے حوالے سے خدمات پر دیا گیا تھا۔


نیلسن منڈیلاکے اقوال آج بھی دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔جوجن میں کچھ یہ ہیں''زندگی میں کبھی ناکام نہ ہونا عظمت نہیں، بلکہ گرنے کے بعد اٹھنا عظمت کی نشانی ہے''۔''والدین کے لیے ایک کامیاب اولاد سے بہتر کوئی انعام نہیں''۔''آپ اس وقت تک اس قوم کی اخلاقی حالت کے بارے میں نہیں جان سکتے جب تک آپ وہاں کی جیلوں میں وقت نہ گزار لیں''۔

''کسی قوم کی شناخت اس کے اس رویے سے نہیں ہوتی جو وہ اپنے اعلیٰ طبقے کے ساتھ روا رکھتا ہے، بلکہ اس رویے سے ہوتی ہے جو وہ اپنے نچلے طبقے سے اپناتا ہے''۔''زندگی میں اہم یہ نہیں کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں دوسروں کی بہتری کے لیے کیا کیا''۔''ہمیشہ پیچھے سے رہنمائی کرو، دوسروں کو یہ باور کرواؤ کہ رہنما وہ ہیں''۔

''جب تک کوئی کام نہ کرلیا جائے تب تک وہ ناممکن محسوس ہوتا ہے''۔''اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ کام کریں، اس کے بعد وہ آپ کا پارٹنر بن جائے گا''۔''باہمت لوگ امن کے لیے کبھی بھی معاف کرنے سے نہیں گھبراتے''۔
اپنی زندگی کے ستائیس سال قید میں گذرے وقت کو یاد کرتے ہوئے نیلسن منڈیلا کا کہنا تھا کہ''جیل میں ڈال دیے جانے کے بعد چھوٹی چھوٹی چیزوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

جیسے جب دل چاہے چہل قدمی کرلینا یا قریبی دکان تک جانا اور اخبار خرید لینا''۔جیل سے آزاد ہونے کے بعد منڈیلا کا کہنا تھا کہ'' جب میں اس دروازے کی طرف بڑھا جو مجھے آزادی کی طرف لے جارہا تھا، تب میں جانتا تھا کہ اگر میں نے اپنی نفرت اور تلخ یادوں کو یہیں نہ چھوڑ دیا تو میں ہمیشہ قیدی ہی رہوں گا''۔موت کے بارے میں منڈیلا کا خیال تھا'' موت ناگزیر ہے جب کوئی شخص اس ذمہ داری کو پورا کرلیتا ہے جو قدرت نے اس کی قوم اور لوگوں کی بہتری کے لیے اس کے ذمے لگائی ہوتی ہے، تب وہ سکون سے مرسکتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ میں اپنی ذمہ داری نبھا چکا ہوں۔ اب میں ابدیت کی زندگی میں سکون سے سو سکتا ہوں''۔بالآخر بیسویں صدی کی قد آور سیاسی شخصیت نیلسن منڈیلا 5 دسمبر 2013 کو95 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ایک مرتبہ ایک انٹرویو کے دوران ان سے سوال کیا گیا کہ وہ کیا چاہیں گے کہ لوگ انھیں کس طرح یاد کریں تو نیلسن منڈیلا کا جواب تھا کہ'' میں چاہوں گا کہ لوگ کہیں ایک ایسا شخص تھا جس نے دنیا میں اپنا فرض نبھایا''۔واقعی آج دنیا انھیں انہی الفاظ سے یاد کرتی ہے کہ منڈیلاایک ایسا شخص تھا جس نے دنیا میں اپنا فرض نبھایا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :