زندگی کے لئے اوزون

بدھ 16 ستمبر 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

اللہ تعالیٰ نے قدرت کا جو نظام بنایا ہے اس کے متعلق جدید دور میں بھی سائنس اسے مکمل طور پر نہیں جان سکی لیکن قرآن پاک میں قدرت کی ان تمام نشانیوں کانہ صرف ذکر موجود ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں تسخیر کرنے کا راستہ بھی بتایا گیا ہے،اسی لئے آج سائنس دان قرآن پاک کی رہنمائی میں تجربات و تحقیق کر رہے ہیںیہی وجہ ہے کہ سائنس جوں جوں ترقی کرتی جارہی ہے ا للہ کی قدرت کی عظیم نشانیاںدنیا کے سامنے ظاہر ہورہی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان ایک خاص ترتیب اور ترکیب سے بنائے ہیں۔قدرت کے ایک عظیم شاہکار زمین پر پہاڑ بنائے گئے تاکہ زمین کا توازن برقرار رہے جبکہ آسمان پر سورج،چاند،ستارے بنائے گئے تاکہ دن اوررات کا تعین ہوسکے اور زمین پر بسنے والے جانداروں کو روشنی اور حرارت مل سکے لیکن اب انسان نے سائنس کی ترقی میں کھو کر قدرت سے چھیڑ چھاڑ کرناشروع کردیا ہے جس کا نتیجہ بدلتے موسم،وبائی امراض اورقدرتی آفات میں اضافہ ہے۔

(جاری ہے)


دنیااب آہستہ آہستہ ایک بڑے خطرے کی جانب بڑھ رہی ہے جس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔زمین کی سطح سے تقریباً 19 کلو میٹر اوپر اور 48 کلو میٹر کی بلندی تک اوزون کی تہہ پائی جاتی ہے ۔یہ زمین کاایک فضائی غلاف ہے جو ایک گارڈ کی طرح سورج سے نکلنے والی الٹرا وائلٹ شعاعوں کو زمین تک براہ راست پہنچنے سے روکتا ہے۔ اگر سورج سے نکلنے والی یہ خطرناک شعاعیں براہ راست زمین پر پہنچ جائیں توجانداروں کو موت کے منہ تک پہچا سکتی ہیںاسی لئے ا اللہ تعالیٰ نے زمین کو ان خطرناک شعاعوں سے بچانے کے لئے ایک خاص فلٹر بنایا ہے جسے اوزون کی تہہ کہتے ہیں۔

اوزون کی تہہ سورج سے نکلنے والی نہایت خطرناک شعاعوں کو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی فلٹر کرلیتی ہیں۔امریکی ماہرین ماحولیات نے 1974 میں اوزون کی تہہ کے متعلق بتایا تھا کہ اگر زمین پر سے یہ تہہ ختم ہوگئی تو دنیا کا درجہ حرارت شدید بڑھ جائے گا اور قطب جنوبی میں برف پگھل جائے گی جس سے ساحلی شہر تباہ ہوجائیں گے اور شدید درجہ حرارت سے جاندار معدوم ہوجائیں گے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر اوزون کی تہہ کو بچانے کے لئے مناسب اور بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو 75 برسوں میں اوزون کی تہہ کا وجود بالکل ختم ہوجائے گا۔
ماہرین کی تحقیق پر اوزون پرت کو مزید تخفیف سے بچانے کے لئے عالمی پیمانے پر 1980کی دہائی میں کوششیں تیز ہوئیں۔ 16ستمبر 1987کو بہت سارے ممالک کی حکومتوں نے اوزون کو نقصان پہنچانے والے مادوں پر کم سے کم انحصار رہنے پر رضامندی ظاہر کی اور ایک معاہدہ پر دستخط کئے جسے مونٹرئیل پروٹوکول ( Montreal Protocol )کا نام دیا گیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1994میں اس معاہدے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مونٹرئیل پروٹوکول کی تاریخ یعنی 16ستمبر کو ہی اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن منانے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد دنیا میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا تھا کہ اوزون کی تہہ زندگی کے لئے کس قدر ضروری ہے۔اسی مناسبت سے اس سال اس دن کا موضوع ہے ''زندگی کے لئے اوزون''۔اگرچہ بین الاقوامی برادری نے اوزون کی تہہ کو ختم کرنے والے مواد پر پابندی لگانے کے لیے ایک معاہدہ کیا جس کے بعدسے دنیا بھر میں سی ایف سی گیسز کے اشیاء میں استعمال کو ترک کر دیا گیا لیکن اس کے باوجود ابھی بھی اوزون کی تہہ کوبہت سے خطرات درپیش ہیں جن میں آلودگی،درختوں کی کٹائی،بدلتے موسم،صنعتی کارخانوں سے اوزون دشمن زہریلی گیسوںکا اخراج شامل ہیں ،ان عوامل کی وجہ سے اوزون کی تہہ کم ہوتی جارہی ہے جبکہ دنیاکے بعض مقامات پرسورج کی شعاعیں مکمل طور پر فلٹر نہیں ہورہیں ،ایسے علاقوں میں رہنے والے انسان او ر جانور جلدی بیماریوں اور مختلف اقسام کے کینسر کا شکار ہورہے ہیں۔

حالیہ تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے انسانوں کی اکثریت پانی کی کمی،ہیپاٹائٹس اور گردوں کے شدید امراض میں مبتلاء ہو رہی ہے۔ادھرماہرین حیاتیات نے بھی خبردار کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 ء تک معدوم ہوجائے گی جس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ کا آخری سنہری مینڈک جو 1999 ء میںموسمیاتی تغیر کے باعث مر گیا تھا،اسے جانوروں کی پہلی معدومیت قرار دیا گیا ہے۔

سورج کی شعاعوں سے ہمیں محفوظ رکھنے والی اوزون کی تہہ کا وجود برقرار رکھنے کے لئے ہمیں آلودگی اورصنعتی زہریلی گیسوں کی روک تھام کرنا ہوگی اس کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے ہوں گے تاکہ موسموں میںہونے والی ڈرامائی تبدیلی واپس اصلی حالت میں لوٹ آئے اور دنیا کا حفاظتی غلاف اوزون قائم رہ سکے کیونکہ اوزون ہی زندگی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :