
تعلیم بنام کورونا
منگل 14 جولائی 2020

ڈاکٹر لبنی ظہیر
(جاری ہے)
ان اثرات سے نکلنے کے لئے بھی نہ جانے کتنے زمانے لگیں گے۔
اس صورتحال میں جب گرد وپیش پر نگاہ ڈالتی اور سوچتی ہوں کہ ہمارے بچے اور ہماری نوجوان نسل اس وبا سے کس بری طرح متاثر ہو رہی ہے تو نہایت افسوس ہوتا ہے۔
اب آئیے ا سکول ایجوکیشن کی طرف اور ان کالجوں کی طرف جو دیہات یا چھوٹے قصبات میں قائم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ستر فیصد کے لگ بھگ بچے ا ن اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ یہ ادارے بالعموم سرکار کے زیر اہتمام چل رہے ہیں۔ ان کی حالت زار سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔ ذیادہ تر میں پینے کا صاف پانی، بیت الخلاء حتی کہ چار دیواری جیسا جزو لازم بھی مفقود ہے۔ جب سے کورونا کی وبا پھوٹی ہے اور تعلیمی ادارے بند ہوئے ہیں، ان ستر فیصد طلباء و طالبات کا تعلیم سے تعلق کلی طور پر ختم ہو گیا ہے۔ نہ ان کی نام نہاد آن لائن تعلیم کا کوئی بندوبست ممکن ہے، نہ ان کے والدین اتنے تعلیم یافتہ ہیں کہ گھروں میں اپنے بچوں کو کتاب کے ساتھ جوڑے رکھیں۔ سوچار پانچ ماہ سے ان ستر فیصد طلباء و طالبات کا تعلیم سے کوئی رشتہ باقی نہیں رہا۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے لئے یہ کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ ہم اس کا تذکرہ بھی نہیں کرتے۔ ہمیں اس پر کوئی پریشانی بھی نہیں ہے۔ ہم روپے پیسے والی سرمایہ کاری کا رونا تو روتے رہتے ہیں لیکن نوجوان نسل ، جو ہمارے مستقبل کی سرمایہ کاری کا درجہ رکھتی ہے، ہماری نظروں میں کو ئی خاص مقام نہیں رکھتی۔
موجودہ حکومت کے بہت بڑے بڑے نعروں اور وعدوں میں سے ایک پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم کا نفاذ ہے۔ یہ نہایت ہی اچھی تجویز اور بڑا پر کشش نعرہ ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ اس نعرے یا وعدے کو عملی شکل دینے کے لئے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ بلا شبہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ جہاں ایک ہی وقت میں تعلیم کے پانچ چھ متوازی دھارے بہہ رہے ہوں، وہاں ایک نظام تعلیم کی منزل پانا آسان نہیں۔ ایک نظا م تو دور کی بات ہے ہم ایک نصاب تعلیم کے لئے بھی ابھی تک ٹامک ٹوئیاں ہی مار رہے ہیں۔ میں کورونا کے حوالے سے دیہات کے سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے جن مسائل کا ذکر کر رہی ہوں، ان کا تعلق بھی یکساں نظام تعلیم کے سرکاری نعرے سے ہے۔ وبا کے اس موسم میں اگر ہم شہر اور دیہات کے بچوں کو یکساں سہولیات فراہم نہیں کر سکتے تو یکساں نظام تعلیم کا نعرہ کہاں گیا؟ شہروں میں قائم بڑے انگریزی میڈیم سکول بچوں کے لئے کسی نہ کسی طرح کی آن۔لائن کلاسز کا اہتمام کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ نرسری کے ننھے منے بچوں کو بھی ماوں کے ذریعے کچھ نہ کچھ سکھانے پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن یہ سہولت بڑے بڑے شہروں میں قائم سرکاری سکول فراہم نہیں رہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کورونا کی وبا نے ہمارے معاشرے کی طبقاتی تقسیم کو اور ذیادہ گہرا اور نمایاں کر دیا ہے۔ ایک دیہاڑی دار مزدور طبقہ ہے جسے باہر نکلنے اور روزی کمانے کی ضرورت ہے تاکہ گھر کا چولہا جل سکے۔ ایک آسودہ حال طبقہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ وبا سے بچنے کے لئے شدید لاک ڈاون ضروری ہے۔ حکومت ان دونوں طبقات کی ترجیحات میں الجھی ہوئی ہے۔سو کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں کر پاتی۔ یہی حال تعلیم کا ہو رہا ہے۔ چار پانچ ماہ کے اندر مراعات یافتہ طبقے کے بچے تو کسی نہ کسی حد تک تعلیم سے منسلک رہے۔ آن لائن نہیں تو انہوں نے گھروں میں ٹیوٹر رکھ لئے۔ لیکن ستر فی صد (شہری سرکاری اداروں کو ملا لیا جائے تو اسی فیصد) سے زائد بچوں کا حال، دیہاڑی دار مزدوروں جیسا ہی رہا۔
اب اعلان ہوا ہے کہ وسط ستمبر میں تعلیمی ادارے کھل جائیں گے۔ اللہ کرئے اس وقت تک وطن عزیز کو اس وبا سے نجات مل جائے اور تعلیمی عمل پھر سے رواں دواں ہو جائے لیکن یہ سوال اب ذیادہ شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آ گیا ہے کہ اگر ہم تعلیم و تدریس کے عمل میں بھی طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے یا کم از کم اس خلیج کو محدود کرنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھاتے تو ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟ ایک طرف بجٹ میں نمایاں کٹوتی نے یونیورسٹیوں کی سرگرمیوں کے پر کاٹ دئیے ہیں، دوسری طرف سرکاری سکولوں کا بجٹ صرف اساتذہ کی تنخواہوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ صورتحال نہایت ہی تشویشناک ہے۔ وبا کے بعد بھی اگر تعلیم کے بارے میں ہمارا رویہ قبل از وبا یا دوران وبا جیسا ہی رہا تو یہ قوم و ملک کی بڑی بد قسمتی ہو گی۔
آخر میں دو افسوسناک خبروں کا ذکر ضروری ہے۔ پاکستان کی معروف سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹی نے اساتذہ سمیت تمام ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں پینتیس فیصد تک کٹوتی کا پروانہ جاری کیا تھا۔ ملازمین کے احتجاج کے بعد گورنر پنجاب چوہدری سرور نے مداخلت کی اور فیصلے کی واپسی کا اعلان کیا۔یہ واقعہ ہمارے نامور تعلیمی اداروں کی مالی ابتری کا غماز ہے۔ ایک خبر یہ چلی کہ حکومت پنجاب نے سرکار ی جامعات کے وائس چانسلر وں کے اختیارات میں کمی کے لئے کمر کس لی ہے۔متعلقہ قانون میں ترمیم کیلئے مصر ہے۔ شور وغوغا پر ایک مرتبہ پھر گورنر سرور بروئے کار آئے۔ فی الحال یہ معاملہ ماند پڑچکا ہے۔اس ضمن میں جا معات کی تنظیمی سیاست میں متحرک افراد متضاد آراء رکھتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ سو فیصد حل ہو چکا ہے۔ جبکہ دیگر کا موقف ہے کہ یہ آفت محض وقتی طور پر ٹلی ہے۔ معاملہ اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ خود وزیر تعلیم اس متعلق ایک تیسرا موقف بیان کرتے ہیں۔ معاملات پردہ اخفا ء میں ہیں اور کچھ ذمہ داران اس قصے پر بات کرنے سے گریزاں ۔ ان معاملات کا تفصیلی ذکر اگلے کسی کالم میں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے کالمز
-
میسور میں محصور سمیرا۔۔!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
چیئرمین ایچ۔ای۔سی ، جامعہ پنجاب میں
جمعرات 10 فروری 2022
-
خوش آمدید جسٹس عائشہ ملک!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
انتہاپسندی اور عدم برداشت
منگل 4 جنوری 2022
-
پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن : ایک پر وقار تقریب
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
جعل سازی اور نقالی کا نام تحقیق!!
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
تعلیم کا المیہ اور قومی بے حسی
بدھ 8 دسمبر 2021
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.