
جرائم محض قانون سازی سے نہیں رکتے!
پیر 21 ستمبر 2020

ڈاکٹر لبنی ظہیر
موٹروے پرہونے والے سانحے میں سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا چاہیے تھا کہ یہ واقعہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے رونما ہوا۔
(جاری ہے)
ماہرین اور محقیقین بتاتے ہیں کہ جرائم محض قانون سازی اور سخت سزاوں سے نہیں رکتے۔جرائم پر قابو پانے کیلئے ماحول کو ساز گار بنانا لازمی امر ہے۔ٍنجانے کیوں ہم اصل مسائل سے منہ موڑے ، شتر مرغ کی طرح ریت میں سر ڈالے رکھتے ہیں۔ جہاں تک نئی قانون سازی کی بات تو قوانین پہلے سے موجود ہیں۔ اصل مسئلہ ان قوانین کے نفاذ کا ہے۔یاد رہے کہ پاکستان سب سے ذیادہ قوانین کے حامل (highly legislated) ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ مگر سب سے ذیادہ جرائم بھی یہیں ہوتے ہیں۔ کوئی نیا قانون بنا لینا یا کڑی سزا تجویز کر دینا مسئلے کا مستقل حل نہیں۔سر عام پھانسی کا مطالبہ کرتے وقت یہ تاویل دی جاتی ہے کہ اس طرح جنسی ذیادتی کے واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جبکہ حقائق اس سے مختلف ہیں۔ 2018 میں زینب نامی بچی کے قتل اور زیادتی کا سانحہ ہوا تھا۔ چند ماہ کے اندر ملزم عمران کا سراغ لگا۔ وہ پکڑا گیا۔ تفتیش مکمل ہو ئی۔ مقدمہ چلا۔عدالت نے سزا سنائی اور مجرم کو پھانسی دے دی گئی۔ اس سانحے کے بعد زینب الرٹ قانون بھی منظور ہوا۔ لیکن کیا اس پھانسی اور قانون سازی کے بعد معصوم بچے بچیوں کیساتھ ہونے والے ریپ کے واقعات تھم گئے؟ نہیں ، ایسا ہر گز نہیں ہوا ۔ معصوم بچوں کے قتل اور زیادتی کے واقعات آج بھی میڈیا پر مسلسل نشر ہوتے ہیں۔ آئے روز کسی بوری میں بند، کسی نالے، جھاڑی یا کوڑے دان کے پاس معصوم پھولوں کی لاشیں ملتی ہیں۔ مجرم عمران کی پھانسی اور زینب الرٹ قانون کے بعد ان واقعات کی تعداد میں ہرگزکمی نہیں آئی۔ بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم "ساحل" کی ایک رپورٹ کیمطابق ان واقعات میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2018 میں بچوں کیساتھ بدسلوکی کی شرح 11 فی صد بڑھ گئی۔ ثابت یہ ہوا کہ نئی قانون سازی ا ور کڑی سزا کی تجویز اس معاملے کا حل نہیں۔حل یہ ہے کہ عوام الناس کے جان و مال کے تحفظ کویقینی بنانے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال بنایا جائے۔ ان اداروں کی اصلاح احوال کی جائے۔ ان کی استعداد کار میں بہتر ی لائی جائے۔ تاکہ اس طرح کے واقعات میں حقیقتا کمی آئے۔
برسوں سے کہا جا تا ہے کہ امن عامہ کی صورتحال میں بہتری درکار ہے تو پولیس کے محکمے کی اصلاح کرنا ہو گی۔عدالتی نظام کو فعال بنانا ہو گا۔ اس امر کی تفہیم ضروری ہے کہ پھانسی تک معاملہ تب پہنچتا ہے۔ جب ملزم گرفتار ہو تا ہے ۔ مقدمہ چلتا ہے۔عدالت بروقت فیصلہ سناتی ہے۔ملزم کو مجرم قرار دیا جاتا ہے۔جبکہ ہمارے ہاں نہ تو شواہد اکھٹے ہوتے ہیں، نہ ملزم گرفتار ہوتے ہیں، نہ مناسب تفتیش ہو پاتی ہے ۔ کوئی کیس عدالت میں جا پہنچے تو فیصلہ ہونے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ صورتحال کی ابتری کا اندازہ لگائیے کہ پاکستان میں جنسی ذیادتی کے مقدمات میں سزا کی شرح (conviction rate)محض 3 فیصد ہے۔ یعنی 97 فیصدملزم بری (بلکہ باعزت بری ) ہو جاتے ہیں۔ دیگر مقدمات کی حالت بھی مختلف نہیں۔ اس وقت ملک کی عدالتوں میں کم وبیش بیس لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں۔ کبھی ججوں کی کم تعداد کو جواز بنایا جاتا ہے۔ کبھی ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو مسائل کی جڑ قرار دیا جاتا ہے۔سانحہ موٹروے کے مفرور ملزم عابد علی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس پر پہلے سے آٹھ مقدمات قائم ہیں۔ 2013 میں وہ اجتماعی زیادتی کے واقعے میں بھی شامل تھا۔ لیکن برسوں سے وہ دندناتا پھرتا ہے۔یہ ہے ہمارا نظام قانون و انصاف ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے کالمز
-
میسور میں محصور سمیرا۔۔!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
چیئرمین ایچ۔ای۔سی ، جامعہ پنجاب میں
جمعرات 10 فروری 2022
-
خوش آمدید جسٹس عائشہ ملک!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
انتہاپسندی اور عدم برداشت
منگل 4 جنوری 2022
-
پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن : ایک پر وقار تقریب
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
جعل سازی اور نقالی کا نام تحقیق!!
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
تعلیم کا المیہ اور قومی بے حسی
بدھ 8 دسمبر 2021
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.