
میثاق پاکستان یا اپوزیشن کی خود فریبی؟
پیر 23 نومبر 2020

ڈاکٹر لبنی ظہیر
(جاری ہے)
اس سب کچھ کا ذکر اس لئے کرنا پڑ رہا ہے کہ اپوزیشن کے سیاسی اتحاد نے ایک نیا "میثاق پاکستان" تیار کرنے کے لئے کمیٹی بنا دی ہے۔ یہ کمیٹی کیا کرئے گی؟ مجھے اس کا کچھ اندازہ نہیں۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ ملکی سیاست اور اداروں کے کردار کے حوالے سے کوئی اصول یا ضابطے طے کرئے گی۔ اپوزیشن کی جماعتیں اس دستاویز پر دستخط کریں گی اور گاڑی پھر اس پٹڑی پر چل پڑے گی۔ چودہ برس قبل، مئی 2006 میں بھی ایسی ہی ایک دستاویز پر دستخط ہوئے تھے۔ پاکستان کی دو بڑی پارٹیوں کی طرف سے میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس پر دستخط کئے تھے۔ اسے "چارٹر آف ڈیموکریسی" یا "میثاق جمہوریت" کا نام دیا گیا تھا۔ کچھ ارکان جو "میثاق پاکستان" تیار کرنے والی کمیٹی کا حصہ ہیں، وہ " میثاق جمہوریت" تیار کرنے والی کمیٹی میں بھی شامل تھے۔ عملا یہی ہوا کہ میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والی جماعتیں بھی اس پر پوری طرح کاربند نہ رہ سکیں۔ جس کو جب موقع ملا اس نے اپنا کام نکالنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیا اور دوسری جماعت منہ دیکھتی رہ گئی۔ اس کی سب سے بڑی مثال پیپلز پارٹی اور جنرل مشرف کے درمیان معاہدہ تھا جو این۔آر۔ او کے نام سے مشہور ہوا۔
صحافت اور سیاست کی ایک طالبہ ہونے کی وجہ سے میرے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر آزادی کے چہتر (74) سال بعد بھی ہمیں کسی "میثاق پاکستان" کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ قوموں کے نظام سیاست وحکومت کے لئے سب سے بڑا میثاق یا عہد نامہ اس کا آئین ہوتا ہے۔ ہم بڑی مشکلوں کے بعد، آدھا ملک گنوا کر 1973 کے آئین تک پہنچے۔ 1956 کے آئین کو ایوب خان کے مارشل لاء نے نگل لیا۔ خود ایوب خان کے بنائے ہوئے 1962 کے آئین کو دوسرے مارشل لاء نے کھا لیا۔ آدھا ملک اسی کھیل کی نذر ہو گیا۔ بالآخر 1973 میں بچے کھچے پاکستان کے بچے کچھے نمائندوں نے طے کیا کہ اب ہمیں وطن عزیز کو کن اصولوں کیمطابق چلانا ہے۔مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے تین ستونوں پر قائم جمہوری پارلیمانی نظام طے پا گیا۔ تمام ریاستی اداروں کی حدود کا تعین ہو گیا۔ واضح لکیریں کھینچ دی گئیں کہ کس ادارے کا دائرہ کار کیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان، عدلیہ کے جج صاحبان، مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں، صدر مملکت، وزیر اعظم اور متعدد دیگر اہم ریاستی اہلکاروں کے حلف نامے اس آئین کا حصہ بن گئے۔ یہ بھی طے پا گیا کہ اگر کوئی فرد، اس آئین کو توڑے گا یا چھیڑ چھاڑ کرئے گا تو اسے "سنگین غداری "سمجھا جائے گا اور موت کی سزا دی جائے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی کون سی بات ہے جس کے لئے " میثا ق پاکستان" کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ یا "میثاق پاکستان" میں ایسی کس بات کا ذکر ہو گا جس کا حوالہ "آئین پاکستان" میں موجود نہیں؟ لگتا یوں ہے کہ لے دے کے یہی کہا جائے گا کہ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے سول ملٹری تعلقات کا مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تو کیا ہمارے آئین نے یہ مسئلہ حل نہیں کر دیا؟ اس میں ایسا کیا ابہام ہے جس کی وجہ سے سول حکمرانوں اور فوج کے درمیان اختیارات کی تقسیم غیر واضح ہے؟ آئین اگر "میثاق پاکستان" نہیں تو اور کون سی دستاویز آئین سے بھی ذیادہ قابل احترام ہو گی کہ تمام ادارے خود کو اس کا پابند محسوس کریں گے۔ آئین سے بڑا میثاق یا عہد نامہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ آئین اپنے تحفظ کے لئے خود ایک میکانزم تجویز کرتا ہے۔ خود بتاتا ہے کہ اسکی خلاف ورزی کی سزا کیا ہے۔ خود بتاتا ہے کہ کوئی جھگڑا کھڑا ہو جائے تو اسے کس طرح حل کرنا ہے۔ خود بتاتا ہے کہ ریاست کے اداروں کی حدود کیا ہیں اور اگر وہ ان حدود میں نہ رہیں تو انہیں کس طرح قابو میں رکھا جائے۔
"آئین پاکستان" کی موجودگی میں کسی نئے "میثاق پاکستان" کی ہرگز ضرورت نہیں ۔کسی بھی ملک کا آئین ہی، قوم کا سب سے بڑا میثاق اور عہد نامہ ہوتا ہے۔ البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین پاکستان کو سبز کتاب سے نکال کر کس طرح اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے؟ کس طرح اس کے الفاظ اور اسکی روح کو اپنے نظام سیاست و حکومت میں سمویا جائے؟ اور اگر اس میں کوئی مشکل پیش آرہی ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ آئین میں دئیے گئے طریقہ کار کے مطابق اس میں ترمیم کر لی جائے۔ نت نئے میثاق لانا اس کا حل نہیں۔ اسے خود فریبی ہی کہنا چاہیے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے کالمز
-
میسور میں محصور سمیرا۔۔!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
چیئرمین ایچ۔ای۔سی ، جامعہ پنجاب میں
جمعرات 10 فروری 2022
-
خوش آمدید جسٹس عائشہ ملک!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
انتہاپسندی اور عدم برداشت
منگل 4 جنوری 2022
-
پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن : ایک پر وقار تقریب
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
جعل سازی اور نقالی کا نام تحقیق!!
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
تعلیم کا المیہ اور قومی بے حسی
بدھ 8 دسمبر 2021
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.