
بڑے ناموں والی جامعات کی ناقص کارکردگی
جمعہ 26 نومبر 2021

ڈاکٹر لبنی ظہیر
(جاری ہے)
میرا تعلق تعلیم و تدریس کے شعبے سے ہے اس لئے میں عموما ایسی خبروں کو توجہ سے پڑھتی ہوں جن کا تعلق تعلیم سے ہو۔ایسی ہی ایک خبر ہفتہ کے روز، "روزنامہ نئی بات "میں پڑھنے کو ملی۔ پہلے آپ ذرا یہ خبر ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔ "سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و فنی تربیت کے اجلاس میں ہائیر ایجوکشن کے حکام نے انکشاف کیاہے کہ ملک کی بہترین قرار دی جانے والی جامعات کا معیار تعلیم گر رہا ہے۔ کئی جامعات نے معیار تعلیم سے متعلق ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ریکارڈ ہی فراہم نہیں کیا۔ کمیٹی کے چیئر مین سینیٹر عرفان صدیقی نے ملک بھر کی پانچ پبلک سیکٹر جامعات کے ریسرچ جرنلز اور ان میں لکھے جانے والے تحقیقی مقالہ جات کو جانچنے کے لئے ایک تین رکنی سب کمیٹی بھی قائم کر دی ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے قائم کردہ سیل کی طرف سے ملک کی 91 جامعات کے بارے میں مرتب کردہ جائزے کے مطابق ملک کی 32 لیڈنگ جامعات کے معیار تعلیم میں کمی آئی ہے۔"
معروف انگریزی اخبار ڈان نے کمیٹی کی کاروائی کی تفصیلات میں بتایا ہے کہ غیر تسلی بخش معیار کی حامل 32 یونیورسٹیوں میں سے دس کا تعلق خیبر پختونخواہ، 9 کا پنجاب،5 کا سندھ، 2 کا آزاد کشمیر اور ایک کا گلگت بلتستان سے ہے۔ ناقص کارکردگی کی حامل جامعات میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، یونیورسٹی آف کراچی، پشاور یونیورسٹی بہاو الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، قائد اعظم یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کوئٹہ، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان، انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، گومل یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان، ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ، عبدالولی خان یونیورسٹی پشاور، PIDE، نیشنل کالج آف آرٹس لاہور، صوابی یونیورسٹی، سوات یونیورسٹی، تربت یونیورسٹی، کوٹلی یونیورسٹی آزاد کشمیر، ویمن یونیورسٹی ملتان، باچا خان یونیورسٹی چار سدہ، خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کڑک،انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی پنجاب، غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان، گورنمنٹ صادق کالج ویمن یونیورسٹی بہاولپور، خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی رحیم یار خان،، بلتستان یونیورسٹی اور مردان یونیورسٹی شامل ہیں۔
یونیورسٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ایک باقاعدہ نظام وضع کر رکھا ہے۔ تمام سرکاری جامعات کو ایک سوالنامہ ارسال کیا جاتا ہے جسے پر کر کے وہ کمیشن کو بھیجتی ہیں۔ فراہم کردہ معلومات اور اعداد و شمار کے مطابق ہائیر ایجوکیشن کمیشن ہر یونیورسٹی کاسکور طے کرتا ہے۔ اگر یہ سکور پچاس فی صد سے کم رہے تو اسکی کارکردگی کو غیر تسلی بخش (unsatisfactory)قرار دیا جاتا ہے۔ میں کوشش کروں گی کی کمیشن کی رپورٹ کی کاپی مل جائے تاکہ قارئین کو آگاہ کیا جا سکے کی پچاس فی صد سے زائد نمبر لینے والی جامعات میں سے کس کا درجہ کیا ہے۔
میں نے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت کو نہایت متحرک کمیٹی خیال کیا جاتا ہے جو جامعات کو درپیش حقیقی مسائل کو اجاگر کر رہی ہے۔ اس کمیٹی کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ اسکے ذریعے قوم کو اپنی سرکاری جامعات کی کارگزاری کا پتہ چلا ہے جو دراصل عوام ہی کے خون پسینے کی کمائی سے چل رہی ہیں۔ اسی کمیٹی کے ایک اجلاس میں ملک کی پانچ بڑی جامعات کے وائس چانسلر صاحبان نے شرکت کی تھی اور بتایا تھا کہ انہیں کتنی شدید مالی مشکلات کا سامناہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے رئیس ا لجامعہ نے انکشاف کیا تھا کہ ان کے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ وہ لیبارٹریز کے تجربات کے لئے کیمیکلز خرید سکیں۔
اس صو رتحال کو کیا نام دیا جائے؟ درد ناک، افسوسناک، یا شرمناک؟ ہمارے دعوے دیکھیں اور عملی کارکردگی پر نگاہ ڈالیں۔ میں نے گزشتہ کالم میں بتایا تھا کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں جنہیں قوم کا مستقبل کہا جاتا ہے۔ اس وقت اڑھائی سے تین کروڑ تک وہ بچے سکولوں سے باہر ہیں جنہیں سکولوں میں کسی نہ کسی درجے کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہونا چاہیے تھا۔ مجال ہے کسی کے کان پر جوں بھی رینگے۔ تدریسی عمل سے باہر ان بچوں کی تعداد میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اب جامعات کی صورتحال سامنے آئی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو کیا تعلیم دے رہے ہیں۔ اول تو بہت کم نوجوان یونیورسٹی سطح کی تعلیم تک پہنچتے ہیں۔ آج بھی کم و بیش 22 لاکھ نوجوان مختلف یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ یہ تعداد ہماری آبادی کی صرف ایک فیصد بنتی ہے۔ اگر اس وقت ان نوجوانوں کو بھی معیاری تعلیم نہیں مل رہی تو اس کے پاکستان کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ہم کس طرح دنیا کی دوسری قوموں کا مقابلہ کریں گے؟
جواز ایک ہی پیش کیا جاتا ہے کہ ہمارے پاس پیسہ نہیں۔ مانا کہ ملک مالی وسائل کے حوالے سے مضبوط نہیں لیکن کہیں نہ کہیں رک کر ہمیں یہ تو سوچنا پڑے گا کہ کن کن مدات کے اخراجات میں کمی کرکے ہم تعلیم و تربیت کو مطلوبہ وسائل فراہم کر سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ یونیورسٹیوں کی ناقص کارکردگی کا محاسبہ کون کرئے گا؟ کون بہتری لانے کے اقدامات کرئے گا؟ ہم تین سال سے صرف ایک ہی بات کا تذکرہ سن رہے ہیں اور وہ ہے "یکساں نصاب تعلیم " کوئی یہ تو دیکھے کہ تعلیمی عمل کس تیزی سے زوال کا شکار ہے ۔کوئی یہ تو سوچے کہ اس زوال کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ کوئی یہ تو بتائے کہ کارکردگی کا یہ عالم ہے اور تین کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں تو "یکساں نصاب تعلیم" کیا کرئے گا؟ لیکن چاروں طرف بس سیاست کا ڈنکا بج رہا ہے۔ قوم کے مستقبل کی کس کو پرواہ ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے کالمز
-
میسور میں محصور سمیرا۔۔!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
چیئرمین ایچ۔ای۔سی ، جامعہ پنجاب میں
جمعرات 10 فروری 2022
-
خوش آمدید جسٹس عائشہ ملک!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
انتہاپسندی اور عدم برداشت
منگل 4 جنوری 2022
-
پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن : ایک پر وقار تقریب
جمعہ 24 دسمبر 2021
-
جعل سازی اور نقالی کا نام تحقیق!!
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
تعلیم کا المیہ اور قومی بے حسی
بدھ 8 دسمبر 2021
ڈاکٹر لبنی ظہیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.