
ایک المیہ۔۔ کیسے تلافی ممکن ہو گی؟
جمعہ 15 جنوری 2021

ڈاکٹر نازش عفان
یہ قصہ کسی ایک فرد کا نہیں ایک معاشرتی المیہ ہے جس نے شعبہ طب سے وابستہ افراد کو نہ صر ف بے چین کیا ہے بلکہ بے شمار سوالیہ نشان سامنے آنے لگے۔
The Protection against Harassment of women at workplace Act.2010
اس میں شک نہیں کہ خواتین کی کام کرنے کی جگہ پر تحفظ کیلئے بنایا گیا قانون نیک نیتی پر مبنی تھا۔ جسکا مقصد ایک بہترین ماحول کی فراہمی اور تحفظ کا یقینی بنانا تھا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قانون میں غلط شکایت کرنے والے یا معاشرے کے معزز افراد کو اس قانون کا سہارا لے کر سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بدنام کر کے ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا کوئی ازالہ موجود نہ ہے۔ اور کیا ہمیشہ حوا کی بیٹی ہی کو تحفظ چاہیے یا کبھی آدم کے بیٹے کو بھی اپنی سالوں بھر کی عزت و وقار کی ضمانت مل سکتی ہے؟ سب سے پہلے تو یہ الزام حضرت یوسف علیہ السلام پر لگایا گیا تھااور پھر قدرت نے کس طرح عزت و قار کی بلندیوں تک پہنچایا۔
کیا کسی نے کبھی سوچا کہ اس ایکٹ میں ایسے تحفظ کا بھی تذکرہ ہے کہ اگر کسی شریف انسان کی عزت کوئی اچھالنا چاہے تو اس کا کوئی تدارک موجود ہے؟ یہ ایک ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے جس سے فرد نہیں خاندان متاثر ہوتا ہے سوسائٹی پر اثر ہوتاہے۔ اور الزام غلط ثابت ہونے پر ازالہ نہ ہونا ایسا نا قابل تلافی نقصان ہے جس کے ذمہ دار پھر ہم سب ہوتے ہیں۔ اس ایکٹ کی آڑ میں کتنی ہیں شکایات ایسی ہوں گی جو غلط ثابت ہونے کے بعد شکایت کنندہ کاکچھ نہ بگاڑسکیں اور نہ ہی ایسی روایات کا تدارک ہو سکا اربا ب اختیار کو اس اہم پہلو پر سوچنا ہوگا اور فوری عملی اقدام کرنے ہونگے۔ انہی خدشات کا اظہار پاکستان اکیڈیمی آف فیملی فزیشنز اپنے اجلاس میں اور گورنر پنجاب کو لکھے گئے خط میں کر چکی ہے، پی ایم اے لاہور اور پنجاب کے صدر بھی ایکٹ پر اپنے تحفظ کا اظہار کر رہے ہیں۔
حال ہی میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ظاہر ہونے والی سٹوری کی تہہ میں جانے کے بعد ایسے ہی حقائق سامنے آرہے ہیں۔ برصغیر کی معروف طبی درسگاہ میں ایک گریڈ سترہ کی لیڈی ڈاکٹر تسلسل کے ساتھ ایسی شکایات کرتی رہی ہیں۔ پہلے شعبہ طب شرعی کے پروفیسر پر یہی الزام لگتا ہے وہ استاد اپنی عزت کی خاطر بڑوں کو معاملہ سمیٹنے کا کہتے ہیں۔ عزت اچھلنے کے ڈر سے پروفیسر صاحب معاملہ ختم کر دیتے ہیں۔ پھر دوسرے شعبہ میں بھی ایسی ہی خط وکتابت سامنے آتی ہے۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا موصوفہ گرلز ہاسٹل کی اسٹنٹ وارڈن کے طور پر اپنے کسی سینئر کو ماننے کے لئے بھی تیار نہیں۔ ہاسٹلز کے قوانین کی پاسداری نہیں ہو رہی۔ اسٹنٹ وارڈن کی رہائش میں بلا اجازت والدہ محترمہ اور خاندان کے دیگر افرادرہائش پذیر ہو جاتے ہیں اور ملازمین اور ہاسٹلز کے مکینوں کی شکایات کا سلسلہ شروع ہو تا ہے تو وارڈن جو کہ خود بھی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور چیف وارڈن گریڈ 20 کی سینیئر پروفیسر، شعبہ میڈیسن کی سربراہ ہیں ان کی ہدایات ہوا میں اڑا دی جاتی ہیں۔ بلکہ الٹا انہیں موصوفہ اسٹنٹ وارڈن کی طرف سے ایسے خطوط جو کہ مس کنڈکٹ میں آتے ہیں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ پانچ سو سے زائد ہوسٹل کے مکینوں کی ذمہ داری، چیف وارڈن اور انتظامیہ کی ہوتی ہے۔ ان کے تحفظ کو یقینی بنانا اور قانون کے مطابق سہولیات فراہم کی جائیں جن میں ان کی طرف سے رکاوٹ کے علاوہ Disobedience بھی کی جاتی ہے۔ معاملہ ڈینز کمیٹی میں زیر بحث ہوتا ہے اور ڈینز کمیٹی چیف وارڈن کے عمل کو درست قرار دیتے ہوئے موصوفہ اسٹنٹ وارڈن کے خلاف ڈسپلنری کمیٹی میں ایکشن کی سفارش کرتی ہے۔
یہ ایک خالصا انتظامی معاملہ ہے جس کیلئے قانونی راستہ اختیار کیا گیا۔ حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ اس قانونی راستہ کو روکنے کیلئے Harasment ایکٹ کا سہارا لیا گیا اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے خلاف درخواست دے دی گئی کیونکہ یہ واحد راستہ سمجھا گیاجس کے ذریعے ہر قسم کی بے قاعدگی کو وقتی تحفظ مل سکے اور پھر موصوفہ کے وکیل نے معاملہ کو ایک غلط بے بنیاد رخ دے کر اپنے نام سے فیس بک، ٹویٹرپر اپلوڈ کیا۔ اخلاقی طور پر یہ انتہائی غلط حرکت کی گئی کہ محتسب کی عدالت میں درخواست دیکر اس کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سامنے لا کر عزت اچھالنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ جس کا کسی طرح بھی اخلاقی جواز نہ بنتا ہے۔ یہ تو اللہ پاک کا کرم ہے کہ محترم وائس چانسلر کی ایک بے داغ زندگی، بہترین کیرئیر کا نہ صرف شعبہ طب گواہ ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس بے بنیاد الزام پر بے زاری کا اظہار کیا اور اس طرح کی حرکت کی پر زور الفاظ میں مذمت کی۔ شعبہ طبی تعلیم کے ایک بڑے ادارے سی پی ایس پی کی انتظامیہ سے ان کا تعلق گزشتہ 15 سالوں سے ہے۔ اور کم از کم پانچ ہزار سے زائد خواتین ڈاکٹرز ان سے وقتا فوقتا مختلف اکڈیمک اشوز پر ملتی بھی رہیں۔ فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی جو کہ خواتین کا طبی ادارہ ہے کے پہلے ریگولر وائس چانسلر رہے دو ہزار سے زائدطالبات زیر تعلیم رہیں اور اس طرح پہلے کیمکولین کنگ ایڈورڈمیڈیکل یونیورسٹی کے ریگولر وی سی بنے۔
سوشل میڈیا ان کی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور مثالی کردار سے بھرا پڑا ہے۔چار سے پانچ ماہ فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں رہے۔ ہر طالبعلم، استاد ان کی اوصاف حمیدہ کا گواہ ہے۔ یونیورسٹی کے لئے ان کی خدمات اپنی مثال آپ ہیں یونیورسٹی کے درو دیوار انسان و شجر ان کے جانے پر جس طرح مغموم تھے انکا اظہار موجودہ واقعہ کے سوشل میڈیا پرپڑھ کر تبصرہ کرتے ہوئے فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر نے لکھا۔ بطور پروفیسر آف فزیالوجی اور پرووائس چانسلر فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں نے پروفیسر گوندل کے ساتھ کام کیا میں ان کی اعلیٰ اخلاقی اقدار، عزت نفس کی گواہ ہوں، میں نے ان کو انتہائی محنتی، دیانت دار اوربہترین کردار کا حامل پایا۔ وہ ایک شفیق استاد اور باپ کی طرح ہیں جو مثالی اوصاف حمیدہ سے مزین ہیں۔اسی طرح سینکٹروں طالبات اور اساتذہ نے بھر پور گواہی دی۔ اسی دور کی فائنل ائیر ایم بی بی ایس کی جی آر لکھتی ہیں میں متعدد مرتبہ ان سے طالبات کے ہمراہ ملی ہوں ان کی خواتین کیلئے عزت بے مثال اور ہمیشہ پدرانہ شفقت رہی ہے۔ یونیورسٹی کی ہر طالبہ ان کے اعلیٰ کردار اور ادارے کے لئے بے مثال خدمات کی گواہ ہیں۔
فاطمہ جناح کو جب الوداع کہنا پڑا تو ہر آنکھ اشکبار تھی جسکا اظہار اسی ادارے کے اسٹنٹ پروفیسرنے کچھ اس طرح کیا۔
میڈیکل ایجوکیشن میں تمغہ امتیاز ملا، پانچ سال قبل ہی طبی خدمات کی بنیاد پر گریڈ 21 مل گیا۔
سچی بات تو ہے کہ کسی نے کہا کہ نظر لگ گئی۔ مگر یہ نظر ایک فرد واحد کو نہیں لگی۔ یہ ایک ادارے کو لگ گئی۔ ایک پروفیشن کو لگ گئی۔ ایک جدوجہد مسلسل سے حاصل کی گئی شہرت اور مقام کو لگ گئی۔ الزام غلط ثابت ہونے پر کون کریگا اس کا ازالہ کون کس کو ذمہ دار ثابت کرے گا۔ کون سامنے لائے گا ان کو جو اس نا پسندیدہ عمل کے محرک بنے انفرادی مفاد کی خاطر اجتماعیت، ادارے کے تشخص کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔یہ تو ایک صاحب کردار تھے جن کی پدرانہ شفقت اور شرافت کا پورا پروفیشن گواہ ہے مضبوط اعصاب کے ساتھ ایسی گھٹیا الزام تراشی برداشت کر گئے۔ کتنے ایسے آدم ?اور یوسف? کے بیٹے ہوں گے جنہوں نے ان الزامات کے بعد گھٹے دم زندگی بسر کی ہو گی۔ اور ہاں جو تین آڈیوز بطور ثبوت خاتون محتسب کو وائس چانسلر کے خلاف فراہم کی گئیں اس میں کوئی الزام کے متعلق بات نہیں نکلی آڈیو منظر عام آنے سے پہلے تشہیر کی گئی کہ ہمارے پاس ان کے خلاف آڈیو ثبوت ہیں لیکن آڈیو میں خالصتا ہاسٹل معاملات اور انتظامی میٹنگ کی گفتگو ہے جسمیں رولز اور ریگولیشنز کا تذکرہ ہے۔ چین آف کمانڈ پر بات کی گئی ہے۔ ہاسٹل کے سول ورک اور تعمیراتی کاموں کا ذکر ہوتا ہے جسمیں پرو وی سی، رجسٹرار، چیف وارڈن، وارڈن، اسٹنٹ وارڈن، لا آفیسر سمیت دس سے زائد افراد موجود ہیں۔ل کسی ایک جگہ بھی ایسے ثبوت کا شائبہ تک نہیں البتہ ان آڈویوز میں شکایت کندہ کو وائس چانسلر نے بار بار بیٹی کہہ کر مخاطب کیا انشااللہ،اللہ پاک کے فضل و کرم سے وہ شرافت کے پیکر سرخرو ہوں گے۔اور پھر اس قانون کو محض کسی کی عزت اچھالنے اور اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے جھوٹی اور من گھڑت سٹوری بنا کر ادارے اور شخصیت کو داغ دار کرنے کی کوشش کئے جانے کا یہ سوال ادھورا رہ جائے گا اور کون شکایت کندہ کو جھوٹے الزام پر کڑے احتساب کے کٹہرے میں لائے گا؟ کہ ایسے بے بنیاد الزامات لگائے جانے کا تدارک کیسے ہو سکے گا؟ کون حوا کی بیٹیوں کے ساتھ آدم کے بیٹوں اور یوسف کا تحفظ کر سکے گا؟
یہ ایک المیہ ہے۔ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ میرے لئے، ہم سب کے لئے اور ارباب اختیار کے لئے ایک بہت بڑا سوال ہے۔
The Protection against Harassment of women at workplace Act.2010
اس میں شک نہیں کہ خواتین کی کام کرنے کی جگہ پر تحفظ کیلئے بنایا گیا قانون نیک نیتی پر مبنی تھا۔ جسکا مقصد ایک بہترین ماحول کی فراہمی اور تحفظ کا یقینی بنانا تھا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قانون میں غلط شکایت کرنے والے یا معاشرے کے معزز افراد کو اس قانون کا سہارا لے کر سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بدنام کر کے ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا کوئی ازالہ موجود نہ ہے۔ اور کیا ہمیشہ حوا کی بیٹی ہی کو تحفظ چاہیے یا کبھی آدم کے بیٹے کو بھی اپنی سالوں بھر کی عزت و وقار کی ضمانت مل سکتی ہے؟ سب سے پہلے تو یہ الزام حضرت یوسف علیہ السلام پر لگایا گیا تھااور پھر قدرت نے کس طرح عزت و قار کی بلندیوں تک پہنچایا۔
(جاری ہے)
حال ہی میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ظاہر ہونے والی سٹوری کی تہہ میں جانے کے بعد ایسے ہی حقائق سامنے آرہے ہیں۔ برصغیر کی معروف طبی درسگاہ میں ایک گریڈ سترہ کی لیڈی ڈاکٹر تسلسل کے ساتھ ایسی شکایات کرتی رہی ہیں۔ پہلے شعبہ طب شرعی کے پروفیسر پر یہی الزام لگتا ہے وہ استاد اپنی عزت کی خاطر بڑوں کو معاملہ سمیٹنے کا کہتے ہیں۔ عزت اچھلنے کے ڈر سے پروفیسر صاحب معاملہ ختم کر دیتے ہیں۔ پھر دوسرے شعبہ میں بھی ایسی ہی خط وکتابت سامنے آتی ہے۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا موصوفہ گرلز ہاسٹل کی اسٹنٹ وارڈن کے طور پر اپنے کسی سینئر کو ماننے کے لئے بھی تیار نہیں۔ ہاسٹلز کے قوانین کی پاسداری نہیں ہو رہی۔ اسٹنٹ وارڈن کی رہائش میں بلا اجازت والدہ محترمہ اور خاندان کے دیگر افرادرہائش پذیر ہو جاتے ہیں اور ملازمین اور ہاسٹلز کے مکینوں کی شکایات کا سلسلہ شروع ہو تا ہے تو وارڈن جو کہ خود بھی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور چیف وارڈن گریڈ 20 کی سینیئر پروفیسر، شعبہ میڈیسن کی سربراہ ہیں ان کی ہدایات ہوا میں اڑا دی جاتی ہیں۔ بلکہ الٹا انہیں موصوفہ اسٹنٹ وارڈن کی طرف سے ایسے خطوط جو کہ مس کنڈکٹ میں آتے ہیں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ پانچ سو سے زائد ہوسٹل کے مکینوں کی ذمہ داری، چیف وارڈن اور انتظامیہ کی ہوتی ہے۔ ان کے تحفظ کو یقینی بنانا اور قانون کے مطابق سہولیات فراہم کی جائیں جن میں ان کی طرف سے رکاوٹ کے علاوہ Disobedience بھی کی جاتی ہے۔ معاملہ ڈینز کمیٹی میں زیر بحث ہوتا ہے اور ڈینز کمیٹی چیف وارڈن کے عمل کو درست قرار دیتے ہوئے موصوفہ اسٹنٹ وارڈن کے خلاف ڈسپلنری کمیٹی میں ایکشن کی سفارش کرتی ہے۔
یہ ایک خالصا انتظامی معاملہ ہے جس کیلئے قانونی راستہ اختیار کیا گیا۔ حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ اس قانونی راستہ کو روکنے کیلئے Harasment ایکٹ کا سہارا لیا گیا اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے خلاف درخواست دے دی گئی کیونکہ یہ واحد راستہ سمجھا گیاجس کے ذریعے ہر قسم کی بے قاعدگی کو وقتی تحفظ مل سکے اور پھر موصوفہ کے وکیل نے معاملہ کو ایک غلط بے بنیاد رخ دے کر اپنے نام سے فیس بک، ٹویٹرپر اپلوڈ کیا۔ اخلاقی طور پر یہ انتہائی غلط حرکت کی گئی کہ محتسب کی عدالت میں درخواست دیکر اس کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سامنے لا کر عزت اچھالنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ جس کا کسی طرح بھی اخلاقی جواز نہ بنتا ہے۔ یہ تو اللہ پاک کا کرم ہے کہ محترم وائس چانسلر کی ایک بے داغ زندگی، بہترین کیرئیر کا نہ صرف شعبہ طب گواہ ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس بے بنیاد الزام پر بے زاری کا اظہار کیا اور اس طرح کی حرکت کی پر زور الفاظ میں مذمت کی۔ شعبہ طبی تعلیم کے ایک بڑے ادارے سی پی ایس پی کی انتظامیہ سے ان کا تعلق گزشتہ 15 سالوں سے ہے۔ اور کم از کم پانچ ہزار سے زائد خواتین ڈاکٹرز ان سے وقتا فوقتا مختلف اکڈیمک اشوز پر ملتی بھی رہیں۔ فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی جو کہ خواتین کا طبی ادارہ ہے کے پہلے ریگولر وائس چانسلر رہے دو ہزار سے زائدطالبات زیر تعلیم رہیں اور اس طرح پہلے کیمکولین کنگ ایڈورڈمیڈیکل یونیورسٹی کے ریگولر وی سی بنے۔
سوشل میڈیا ان کی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور مثالی کردار سے بھرا پڑا ہے۔چار سے پانچ ماہ فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں رہے۔ ہر طالبعلم، استاد ان کی اوصاف حمیدہ کا گواہ ہے۔ یونیورسٹی کے لئے ان کی خدمات اپنی مثال آپ ہیں یونیورسٹی کے درو دیوار انسان و شجر ان کے جانے پر جس طرح مغموم تھے انکا اظہار موجودہ واقعہ کے سوشل میڈیا پرپڑھ کر تبصرہ کرتے ہوئے فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر نے لکھا۔ بطور پروفیسر آف فزیالوجی اور پرووائس چانسلر فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں نے پروفیسر گوندل کے ساتھ کام کیا میں ان کی اعلیٰ اخلاقی اقدار، عزت نفس کی گواہ ہوں، میں نے ان کو انتہائی محنتی، دیانت دار اوربہترین کردار کا حامل پایا۔ وہ ایک شفیق استاد اور باپ کی طرح ہیں جو مثالی اوصاف حمیدہ سے مزین ہیں۔اسی طرح سینکٹروں طالبات اور اساتذہ نے بھر پور گواہی دی۔ اسی دور کی فائنل ائیر ایم بی بی ایس کی جی آر لکھتی ہیں میں متعدد مرتبہ ان سے طالبات کے ہمراہ ملی ہوں ان کی خواتین کیلئے عزت بے مثال اور ہمیشہ پدرانہ شفقت رہی ہے۔ یونیورسٹی کی ہر طالبہ ان کے اعلیٰ کردار اور ادارے کے لئے بے مثال خدمات کی گواہ ہیں۔
فاطمہ جناح کو جب الوداع کہنا پڑا تو ہر آنکھ اشکبار تھی جسکا اظہار اسی ادارے کے اسٹنٹ پروفیسرنے کچھ اس طرح کیا۔
لوٹا دے مجھ کو باپ میرا
دیکھتا کیا ہوں اک محفل میں
ہر آنکھ تھی اشکبار
کیا تھا وہ شخص تھا جس کے لئے ہر دل میں پیار
آیا تھا جو اندھیروں میں روشنی کی کرن کی طرح
سنبھالا تھا جس نے جامعہ کو بن کے اس کا سپہ سالار
بدلوں گا سب کی تقدیر تھا اس کا یہ ارادہ
کردیا اس نے یہ سب کچھ تھا اتنا وہ با وقار
زمانے کی قیاس آرائیوں میں کھودیا ہم نے سب کچھ
لوٹ کر آئے گا وہ اک دن یہ دل ہے بے قرار
چھپا کے اپنی نم زدہ آنکھیں پوچھا اک طالبہ نے
کھو دوں گی اپنی والدہ کو کیا آج میں دوبارہ اک بار
سنا ہے بدلتی تقدیریں ہیں دعاوں میں ہے اتنی طاقت
لوٹا دے مجھ کو باپ میرا، نہ ہوگا مجھ سے انتظار
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے لئے ان کی طبی تعلیمی اور تحقیقی خدمات سب پر عیاں ہیں بنیادی مضامین پی ایچ ڈی کی منظوری، ریسرچ میں کوالٹی کے معیار کی بلندی جاری منصوبوں کی تکمیل، شعبہ ٹیلی میڈیسن کا قیام، کوویڈ میں ملحقہ ہسپتالوں کے کردار کے ساتھ سب سے اہم فیکلٹی میں ٹیم سپرٹ کی موجودگی اور ترقی کا ایسا سفر جسکا اعتراف انگلینڈ ا ور امریکہ سمیت ایلومینائی نے برملا کیا۔ دیکھتا کیا ہوں اک محفل میں
ہر آنکھ تھی اشکبار
کیا تھا وہ شخص تھا جس کے لئے ہر دل میں پیار
آیا تھا جو اندھیروں میں روشنی کی کرن کی طرح
سنبھالا تھا جس نے جامعہ کو بن کے اس کا سپہ سالار
بدلوں گا سب کی تقدیر تھا اس کا یہ ارادہ
کردیا اس نے یہ سب کچھ تھا اتنا وہ با وقار
زمانے کی قیاس آرائیوں میں کھودیا ہم نے سب کچھ
لوٹ کر آئے گا وہ اک دن یہ دل ہے بے قرار
چھپا کے اپنی نم زدہ آنکھیں پوچھا اک طالبہ نے
کھو دوں گی اپنی والدہ کو کیا آج میں دوبارہ اک بار
سنا ہے بدلتی تقدیریں ہیں دعاوں میں ہے اتنی طاقت
لوٹا دے مجھ کو باپ میرا، نہ ہوگا مجھ سے انتظار
میڈیکل ایجوکیشن میں تمغہ امتیاز ملا، پانچ سال قبل ہی طبی خدمات کی بنیاد پر گریڈ 21 مل گیا۔
سچی بات تو ہے کہ کسی نے کہا کہ نظر لگ گئی۔ مگر یہ نظر ایک فرد واحد کو نہیں لگی۔ یہ ایک ادارے کو لگ گئی۔ ایک پروفیشن کو لگ گئی۔ ایک جدوجہد مسلسل سے حاصل کی گئی شہرت اور مقام کو لگ گئی۔ الزام غلط ثابت ہونے پر کون کریگا اس کا ازالہ کون کس کو ذمہ دار ثابت کرے گا۔ کون سامنے لائے گا ان کو جو اس نا پسندیدہ عمل کے محرک بنے انفرادی مفاد کی خاطر اجتماعیت، ادارے کے تشخص کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔یہ تو ایک صاحب کردار تھے جن کی پدرانہ شفقت اور شرافت کا پورا پروفیشن گواہ ہے مضبوط اعصاب کے ساتھ ایسی گھٹیا الزام تراشی برداشت کر گئے۔ کتنے ایسے آدم ?اور یوسف? کے بیٹے ہوں گے جنہوں نے ان الزامات کے بعد گھٹے دم زندگی بسر کی ہو گی۔ اور ہاں جو تین آڈیوز بطور ثبوت خاتون محتسب کو وائس چانسلر کے خلاف فراہم کی گئیں اس میں کوئی الزام کے متعلق بات نہیں نکلی آڈیو منظر عام آنے سے پہلے تشہیر کی گئی کہ ہمارے پاس ان کے خلاف آڈیو ثبوت ہیں لیکن آڈیو میں خالصتا ہاسٹل معاملات اور انتظامی میٹنگ کی گفتگو ہے جسمیں رولز اور ریگولیشنز کا تذکرہ ہے۔ چین آف کمانڈ پر بات کی گئی ہے۔ ہاسٹل کے سول ورک اور تعمیراتی کاموں کا ذکر ہوتا ہے جسمیں پرو وی سی، رجسٹرار، چیف وارڈن، وارڈن، اسٹنٹ وارڈن، لا آفیسر سمیت دس سے زائد افراد موجود ہیں۔ل کسی ایک جگہ بھی ایسے ثبوت کا شائبہ تک نہیں البتہ ان آڈویوز میں شکایت کندہ کو وائس چانسلر نے بار بار بیٹی کہہ کر مخاطب کیا انشااللہ،اللہ پاک کے فضل و کرم سے وہ شرافت کے پیکر سرخرو ہوں گے۔اور پھر اس قانون کو محض کسی کی عزت اچھالنے اور اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے جھوٹی اور من گھڑت سٹوری بنا کر ادارے اور شخصیت کو داغ دار کرنے کی کوشش کئے جانے کا یہ سوال ادھورا رہ جائے گا اور کون شکایت کندہ کو جھوٹے الزام پر کڑے احتساب کے کٹہرے میں لائے گا؟ کہ ایسے بے بنیاد الزامات لگائے جانے کا تدارک کیسے ہو سکے گا؟ کون حوا کی بیٹیوں کے ساتھ آدم کے بیٹوں اور یوسف کا تحفظ کر سکے گا؟
یہ ایک المیہ ہے۔ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ میرے لئے، ہم سب کے لئے اور ارباب اختیار کے لئے ایک بہت بڑا سوال ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.