علامہ اقبال بزبانِ خادم حسین رضوی

جمعرات 18 نومبر 2021

Engineer Muhammad Abrar

انجینئر محمد ابرار

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کو حکیم الامت کہا جاتا ہے اور انہوں نے صرف برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کے لئے کلام لکھا. نظم و نثر دونوں میں علامہ اقبال اپنے ہم عصر اور بعد میں آنے والے شعراء و مصنفین میں اپنی الگ حیثیت و مقام رکھتے ہیں. ان کے اشعار نوجوان نسل کے لہو کو گرماتے ہیں اور جذبہ ایمانی کو ابھارتے ہیں.

اقبال کی شاعری اور اقبال کے افکار ہر دور کے مسلمانوں کے لئے مشعل راہ ہیں.

(جاری ہے)

گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جہاں علامہ اقبال کی اردو اور فارسی شاعری کو نصاب تعلیم سے نکال دیا گیا ہے وہیں ان کی شاعری کو مسلمانون کی روح میں اتارتے کا کام ایک مرد مجاہد نے سرانجام دیا جسے دنیا شیخ الحدیث والتفسیر امام الصرف فنا فی الخاتم النبیین علامہ حافظ خادم حسین رضوی کے نام سے جانتی ہے.

علامہ اقبال کی شاعری اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ جام علامہ خادم حسین رضوی نے اس امت کو پلائے ہیں کہ ان کو صدیوں تک یاد رکھا جائے گا. علامہ صاحب کو اقبال سے اس قدر محبت تھی کہ وہ فرماتے تھے کہ میں قرآن کا بھی حافظ ہوں اور اقبالیات کا بھی حافظ ہوں. وہ جب تک اپنی بات میں اقبال کا شعر نہ پڑھ لیتے تب تک ان کی بات پوری نہ ہوتی تھی.

چنانچہ علامہ اقبال کے اک شعر جس میں وہ فرماتے ہیں کہ سیاست سے اگر دین کو جدا کر دیا جائے باقی صرف جنگیزی رہ جاتی ہے کے تحت سیاست کو اسلام کے تابع کرنے کا بیڑا اٹھایا.
جلال بادشاہی ہو یا جمہوری تماشا
جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
لہذا فی زمانہ سیاست جھوٹ مکر و فریب کا نام ہے جبکہ اصل سیاست وہ ہے جو دین کے تابع ہو.
علامہ محمد اقبال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ عشق و محبت تھی اور اس کا اظہار انہوں نے جابجا فریایا.
باخدا در پردہ گویم با تو گویم آشکار
یارسول اللہ! او پنھاں و تو پیدای من
اقبال نے فرمایا کہ میں خدا سے تو چھپ چھپ کے عرض کرتا ہوں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کھلم کھلا کرتا ہوں.

کیونکہ یا رسول اللہ رب تو مجھ سے پنہاں ہے مگر آپ کی ذات تو ظاہر ہے. علامہ خادم حسین رضوی بھی اقبال کے اسی عقیدے پر کاربند تھے اور ان کا لگایا گیا نعرہ لبیک یا رسول اللہ اس کی واضح دلیل ہے. اسی تحریک لبیک یا رسول اللہ نے علامہ خادم رضوی کی حیات میں ختم نبوت اور ناموس رسالت کے لئے بے پناہ قربانیان دیں اور دشمنانِ ناموس رسالت و ختم نبوت کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی.

علامہ صاحب ملک پاکستان میں اسلام کے حق میں اٹھنے والی ایک گرج دار آواز تھے کہ ان کے ایک بیان سےعالم کفر پر لرزہ طاری ہوجایا کرتا تھا. ہالینڈ نے جب گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا تو اسی مرد مجاہد نے فرانس کو للکارا جس کی بناء پر وہ مقابلہ منسوخ کر دیا گیا. گیرٹ ویلڈر بامی ملعون سیاست دان علامہ صاحب کو قید اور پھانسی دینے کا مطالبہ کرنے لگا.
اقبال نے جہاں پیغام دیا خودی یا وہیں عشق مصطفی بھی بیان کیا.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان بیان کرتے لکھتے ہیں
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رَنگ تیرے محیط میں حباب
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل غیاب و جستجو،عشق حضور و اضطراب
یعنی رسول اللہ کی وجہ سے ہی یہ لوح و قلم اور یہ دنیا وجود میں آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو نہ لوح ہوتی نہ قلم اور نہ ہی کتاب.

اور جس آسمان کے طول و عرض کا معلوم نہیں وہ آسمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسے ہے جیسے سمندر کے مقابلے میں ایک بلبلا. اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہے کے عقل اور عشق دونوں اپنی مراد پا گئے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہی سب سے اولین ترجیح ہونی چاہئے اور اس محبت کا تقاضہ ہے کہ محبوب کی محبوب چیزوں سے پیار اور محبوب کے دشمنوں سے دشمنی کی جائے.

یہی اقبال کی فکر تھی اسے علامہ خادم حسین رضوی نے اپنایا. پورے عالم اسلام میں جہاں بھی گستاخی ہوتی آپ اور آپ کی تحریک اسکی روک تھام اور اسکے خلاف پاکستان لیول پر بھرپور کاروائی کا مطالبہ کرتی رہی اور ان کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے. اقبال نے لکھا
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ اتباع کا جذبہ اگر ارکان شریعت کی بجاآوری کا محرک نہ ہو تو عبادت بارگاہ الہی میں قبول نہیں ہوتی.
اقبال نے مولانا روم کو پڑھا اور اسے بطور اپنا رہبر اپنایا.

علامہ اقبال سے بے پناہ عقیدت اور ساری زندگی لوگوں کو اقبالیات سنا کر مسلمانوں کا ماضی یاد کروانے والے شخص کو یوم وصال بھی ۴ ربیع الثانی کو یوم اقبال 9 نومبر کو تھا. آج بھی اگر قوم علامہ اقبال کے پیغام کو اپنا کر بجائے قومیت کہ ایک امت بن کر ابھرے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتی.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :