
بے حیائی ایک معاشرتی ناسور
ہفتہ 2 اکتوبر 2021

انجینئر محمد ابرار
(جاری ہے)
نوجوان لڑکیاں بجائے جسم ڈھانپنے کے، جسم کی نمائش کو ترجیح دیتی ہیں. کیوں کے انسان کی فطرت ہے کہ وہ جس چیز کا مشاہدہ کرتا ہے اسے اپنانے کی کوشش کرتا ہے.
فلموں ڈراموں میں یہی کلچر نوجوان نسل کو سکھایا جا رہا ہے. کہیں سسر بہو کے ناجائز تعلقات اور کہیں بہنوئی سالی کے معاشقے دکھائے جا رہے ہیں. کل ایک کلپ نظر سے گزرا جس میں ایک ڈرامے میں ایک بوڑھی عورت ایک جوان لڑکی کو کہتی سنائی دی کہ تم نے بہت سارے (لڑکے) بھنسائے ہوئے ہیں کسی ایک سے ٹانکا فٹ کر لو ہم ادھر بیاہ دیں گے. اس سارے تناظر میں پیمرا ابدی نیند سو رہا ہے وگرنہ حکومت کے خلاف بات آنے پر فوراً پروگرام پر بین لگ جاتا ہے لیکن ان فحش ڈائیلاگز والے ڈراموں پر کسی قسم کا بین نہیں لگایا گیا. پاکستانی ڈراموں میں جسے غریب و لاچار دکھانا ہو اسے بڑی سی چادر اور اسکارف میں ملبوس دکھایا جاتا ہے جبکہ پڑھے لکھے اور باشعور طبقہ کی عکاسی کے لئے جینز اور شرٹ میں ملبوس خواتین سکرین پر نظر آتی ہیں. سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا اسلام مظلوم و لاچار ہے؟ کیا بے حیا کلچر صحت مند معاشرے کی علامت ہے؟ کیا خود کو ترقی یافتہ ثابت کرنے کے لئے ادھ ننگا دکھانا ضروری ہے؟ انہی عوامل کی وجہ سے پاکستان میں کالجوں یونیورسٹیوں میں گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کلچر پروان چڑھ رہا ہے. بعدازاں اسی محبت کی پیداوار ایدھی سینٹر میں بغیر باپ کی پہچان کے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے یا یہ لوگ اس نومولود کو کسی کوڑا دان میں پھینک دیتے ہیں. عائشہ اکرم کیس اور اس قسم کے لاتعداد کیس محض بے حیائی اور جنسی بے راہ روی کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں. بد نگاہی ہر گناہ کا پہلا درجہ ہے. فلموں ڈراموں اور سماج میں چلتی پھرتی زندہ ادھ ننگی لاشوں کو دیکھ کر نوجوان طبقے کے جذبات ابھرتے ہیں. اسی وجہ سے وہ کسی طور پر جنسی تسکین کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے. لاہور میں ماں بیٹی کے ساتھ رکشہ ڈرائیور اور اس کے مبینہ ساتھی نے زیادتی کی. بس اڈے سے ایل ڈی اے کے ویرانے میں لےجایا گیا اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا. یوم آزدی پر کچھ نوجوان لڑکے رکشہ پر سوار خواتین کو آوازیں کس رہے تھے. ایک نے تو حد ہی کر دی کہ موٹر سائیکل سے آگے ہو کر لڑکی کا بوسہ لیا اور پھر موٹر سائیکل پر براجمان ہوگیا. یہ افعال دیکھ کر دل ایک بار ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ کیا یہی پاکستان تھا جو قائد اعظم محمد علی جناح نے اتنی مصائب و تکالیف اور ہزاروں قربانیوں کے بعد حاصل کیا؟ اسی پاکستان میں خواتین کی عزت محفوظ نہیں. اگر پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم ہو، خواتین پردہ کریں اور مرد اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں. کوڑے پڑنے اور سنگسار کرنے کی سزائیں موجود ہوں تو کون اس طرح کا قبیع فعل سر انجام دینے کی جرات کرے گا؟ افسوس صد افسوس یہ جنسی درندے اگر پکڑے جائیں، یا تو جنونی کہہ کر رہا کر دیے جاتے ہیں یا ان کے وکلاء ان کو پاگل ڈکلئیر کر کے چھڑوا لیتے ہیں. مظلوم کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں. البتہ بہت سے ویب پیجز اور چینلز والے محض اپنی ریٹنگ لائکس کمنٹس اور فالوورز کے چکر میں انٹرویو کر کر کے مظلوم کو اور بدنام کر دیتے ہیں تا کہ وہ کبھی نارمل زندگی کی طرف نہ لوٹے اور خودکشی کو ترجیح دے. بے حیائی کی روک تھا فرد واحد کا کام نہیں اسے پورے معاشرے کو مل کر روکنا ہوگا. بے حیاء بے پردہ خواتین کا باپردہ خواتین بائیکاٹ کریں اور ان کو اس بات کی تعلیم دی جائے کہ اسلامی و اخلاقی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے پردہ کیوں ضروری ہے. یونیورسٹی لیول پر داخلے کے لئے نکاح نامہ لازمی قرار دیا جائے تا کہ بجائے بوائے فرینڈ کے خاوند اپنی خواتین کے ساتھ پڑھیں یا ان کی پڑھائی سے متعلقہ ضروریات پوری کریں. اگر اک نظرہمسایہ ملک افغانستان کو دیکھیں تو اس میں امریکی انخلاء کے بعد اب حالات معلوم پر آ رہے ہیں. بہت سے پارلر اور سلون والی خواتین و حضرات نے فحش تصاویر دیواروں پر اویزاں کر رکھی تھیں. اسلامی حکومت آنے کے بعد وہ سب ان پر سفید رنگ کر کے مٹاتے نظر آ رہے ہیں. باپردہ خواتین نے حکومت پر مکمل اعتماد کا اظہار کر کہ اس سے مردوں سے الگ تعلیمی پلیٹ فارم مہیا کرنے کا مطالبہ کیا ہے. کسی قسم کا کوئی جنسی ہراسگی کا واقع رونما نہیں ہوا. کیا وجہ ہے کہ ہم آزادی کو اتنے سال گزرنے کے باوجود ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں؟ اور اسی اسلامی ملک میں حقوق نسواں کے نام پر مغربی ٹکڑوں پر پلنے والی این جی اوز کو کھلی چھٹی فراہم کی گئی ہے کہ وہ جیسے چاہیں اس ملک کی عوام کے اخلاقی اقدار کا حلیہ بگاڑیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بے حیائی جیسے معاشرتی ناسور کو ختم کرنے کے لئے اعلی سطح پر اقدامات کرے. جب حکومتی مشینری ان افعال سے پاک ہوگی اور بروقت انصاف کو یقینی بنایا جائے گا تو عوام بھی اس پر عمل کرے گی.ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
انجینئر محمد ابرار کے کالمز
-
شاہ جہاں کا یوم وفات
جمعہ 21 جنوری 2022
-
پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
سیالکوٹ، توہین مذہب کا واقعہ
منگل 7 دسمبر 2021
-
علامہ اقبال بزبانِ خادم حسین رضوی
جمعرات 18 نومبر 2021
-
کالعدم تحریک لبیک کا احتجاج اور اصل حقائق
منگل 2 نومبر 2021
-
محسن ملت ڈاکٹر عبدالقدیر خان
پیر 11 اکتوبر 2021
-
بے حیائی ایک معاشرتی ناسور
ہفتہ 2 اکتوبر 2021
-
8ستمبر نفاذ اردو کا تاریخ ساز فیصلہ
جمعرات 9 ستمبر 2021
انجینئر محمد ابرار کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.