"طبقاتی تقسیم اور کرونا"

پیر 21 ستمبر 2020

Engr. Nasir Nazir Ferozpuri

انجینئر ناصر نذیر فیروزپوری

 غریب شہر فاقوں سے مر گیا عارف
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی
تاریخ شاہد ہے قومیں غلطیوں سے توگزر بسرکر ہی لیتی ہیں مگر ظلم اور ناانصافی سے نہیں۔ہم لوگ اللہ کی رحمت اور شاید دعاؤں کے سہارے ہی زندہ اور چل رہے ہیں کہ ہم نے بیماریوں، حادثات اور مصائب کے دوران بھی طبقاتی تقسیم نہیں چھوڑی۔ ایسی صورت ِحال میں بھی کہ جب دنیا اور ارضِ وطن ایک نا گہانی آزمائش ، بیماری اور خوف کے سائے میں ہے ابھی بھی بدقسمتی سے ریاستی اور معاشرتی سطح پر چھوٹے بڑے، امیر غریب جیسے غلیظ امتیاز اور طبقاتی تقسیم کی روش چل رہی ہے۔


ریاست تو اک عرصے سے فلاحی اور ترقیاتی تصور سے نا آشنا اور بے پرواہ ۔ بالخصو ص غیر معمولی صورتِ حال میں بھی تا سُف سے کام لیتی اور حسبِ معمول ردِعمل کی عادی۔

(جاری ہے)

جو کہ ایک المیہ در المیہ کے مصداق ہے۔ کرونا جیسی بیماریاں اور آزمائشیں قوموں کے اجتماعی ضمیر، کاوش اور اتحاد و یگانگت کا امتحان اور گھڑی ہوا کرتی ہیں جن سے نکلنا مشکل اور کٹھن ضرور مگر نا ممکن نہیں ہوتا۔

مگریہ سب ریاست کے مدّبرانہ اور مادرانہ کردار سے لوگوں میں احساس ِ ذمہ داری اور اخوت و محبت کے جذبات اُبھارنے سے ہی ممکن ہے۔
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع ِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زُباں ہوجا
                                                  (اقبال)
حفاظتی تدابیر اور اقدامات کے تناظر میں بھی غریب اور نچلے طبقات کے لیے زحمت ، پریشانی اور امتیاز ہے۔

جیسا کہ ماسک ، سینیٹائزر اور ہینڈ واش وغیرہ کا مہنگے داموں ملنا یا مارکیٹ سے غائب ہونا بھی غریب اور متوسط طبقے کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں۔ کیونکہ اشرافیہ اور اُمراء تو مہنگے داموں بھی اِن اشیاء کی خریداری اور دستیابی ممکن بنا سکتے ہیں جبکہ غُرباء تو اس معاملے اور حالت میں بھی حکومت اور ریاست کے رحم وکرم پر ہیں یا آ جا کے اگر کچھ مخیر حضرات کی ان تک رسائی ممکن ہو سکے تو وہ ان میں سے کچھ اشیاء کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے۔


اسی طرح ایک اور اہم پہلو بیماری کی تشخیص، اس کا علاج اور طبی سہولیات و عملے کا رویہ ہے۔ اس مرحلے سے گزرنا بھی غریب اور متوسط طبقے کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے ہر کام کروانے کے لیے سفارش اور سہارے کی ضرورت ایک تلخ حقیقت ہے۔ اس لیے ایسے موقعے پر بھی طبقاتی امتیاز سے ایک اٹل حقیقت اور معاشرتی بے حسی عیا ں ہوتی ہے۔

علاج کے اخراجات سے لے کر ادویات اور طبی عملے کے فرمائشی رویے غریب اور متوسط طبقے کی بے بسی کا منہ چراتے ہیں۔
سب سے اہم پہلو جس کو کسی حد تک حکومت نے نمایاں کیا اور امید ہے کہ جلد یا بہ دیر اس کے ثمرات متاثرین تک پہنچنا شروع ہو جائیں گے وہ مزدور، خط لکیر سے نیچے اور دیہاڑی دار شہریوں کی امداداور کفالت کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ کاروبارِ زندگی اور روزمرہ کالین دین کم ہونے سے سب سے زیادہ جو متاثر ہوا ہے وہ روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والا مزدور اور کم سے کم تنخواہ والا طبقہ ہے۔

جس کی روزمرہ کی معاشی اور گھریلو زندگی بری طرح مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔
اشرافیہ اور امراء کا طبقہ تو اپنی جمع پونجی اور آمدن کے کئی ذرائع ہونے کے باعث بہت ہی کم متاثر ہو ا اور اپنی اور خاندان کی ضروریات پوری کرنے کی سکت رکھتا ہے۔مگر غریب ، متوسط اور نچلے طبقے کی ذمہ داری اگر ریاست نے نہ اُٹھائی اور ہر طرح کی خوراک اورطبی سہولیات کی فراہمی اس طبقے تک پہنچانے کا باہم انتظام نہ کر سکی تو خدانخواستہ ہم ایک اور کرونا کا شکا ر نہ ہو جائیں ۔

کیونکہ غربت ، افلاس اور بھوک کی کمی کے کرونا سے بچنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس کا شکار کروڑوں انسان ہو سکتے ہیں جبکہ کرونا سے اموات ابھی تک محدود ہیں۔ بقول حکیم الامت:
وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ ِ فردا
جس قوم کی تقد یر میں ا مروز نہیں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :