سیّدنا ہجویر کانفرنس اور فیضِ عارِف

پیر 12 اکتوبر 2020

Engr. Nasir Nazir Ferozpuri

انجینئر ناصر نذیر فیروزپوری

گنج بخشِ فیضِ عالم مظہرِ نورِ خُدا
نا قصاں را پیرِ کامل کاملاں را راہنما
اللہ کا فضل و کرم اور تاریخ شاہد ہے کہ جو اللہ کے نام کی حُرمت اور سر بُلندی کے لیے سرگرمِ عمل رہتا ہے اللہ بھی اسکا نام زندہ و جاوید رکھتا ہے۔اسکی تابندہ و درخشاں مثال شہرِ لاہور میں عالمِ اسلام باا لخصوص برّصغیر کے عظیم ُصوفی، بزرگ، شیخ، حضرت علی بِن عثمان بِن ہجویری المعروف داتا گنج بخش  کا مزارِ اقدس ہے۔

جہاں ہر وقت زائرین کا تانتا بندھا رہتا اور ذکر و اذکار کی محافل کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ اس کے بر عکس اسی شہرِ لاہور میں مزار سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر برِصغیر کے دو عظیم مغل بادشاہ آسودہِ خاک ہیں جن کی قبور سے اکژیت ناآشنا یاوہ فقط سیر وتفریح کی علامت۔

(جاری ہے)


روزمرّہ کے معمول میں توبعض اوقات مزار پر حاضری کا شرف مل ہی جاتا ہے مگرعُرس کے ایّام میں یہ سعی ہوتی ہے کہ محکمہ اوقاف کے زیرِانتظام ہونے والی تقریبات میں شرکت یقینی ہو سکے۔

خصوصاً گزشتہ چند سالوں سے ہونے والی کانفرنس اور پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کے خطاب سے استفادہ کیاجاسکے۔اسی سلسلے میں سہ روزہ کانفرنس میں سے ایک دن پروفیسر صاحب کا خطاب سُننے کا موقع میسّر آیا۔مزارِ اقدس کے ہر جاہ پھیلے کبوتروں اور میناروں کے سائے میں یہ کانفرنس مسجد کے اندر منعقد کی گئی۔قاری صداقت کی خوش الحان آواز میں تلاوت اور ڈی۔

جی اوقاف کے صاحبزادے کی دم دار آواز میں نعت کے بعد پروفیسر صاحب نے خطاب کا آغاز کیا۔
عارِف نے کہا:کتاب اللہ کی رُو سے ہر وہ شخص ولی اللہ ہو سکتا ہے جس کا اخلاص اُسے ہر صُورت اللہ سے جوڑے رکھتا ہے۔بڑے سے بڑا ولی اللہ بھی چھوٹی پگڈنڈی سے گزر کر ہی اُس مقام تک پہنچتا ہے۔مردِدرویش نے کہا تھا:
مہرو مہ و انجُم کا مُحاسب ہے قلندر،
ایّام کا مُرکّب نہیں راکب ہے قلندر
                                      (علاّمہ ا قبال)
انتہائی خوبصورت فرمانِ آقا نامدا ر ﷺسُنایا، جو زیست اور دین کا نچوڑ ہے:” نرمی جس شے میں داخل ہو جاتی ہے وہ خوبصورت ہو جاتی ہے، اورجس شے سے نکل جاتی ہے وہ بدصورت ہو جاتی ہے۔

“ حاکم ِوقت اور بادشاہ کے مُتعلق فرمانِ رسُول ﷺسُنایا: ”بادشاہ رعایا کے لیے نبی کی سی حیثیت رکھتا ہے، وہ قوم کا مُبلغ،مُصلح اور ناصح ہوتا ہے“۔اسی طرح حضرت جُبیر  کے لین دین کے ایک واقعے سے سرکارِ دو جہاں ﷺکا فرمانِ مُبارک واضح فرمایاجس کی بنیاد تقلید اور بیعت تھی۔ حضرت جُبیرنے اپنے غلام کو گھوڑاخریدنے بیجھا اس نے گھوڑے کی وُقعت اور خصوصیات سے کم قیمت پر اسے خرید لیا۔

آپ نے فرمایا:اس کے مالک کو لاؤ، وہ شخص آیاتو آپ نے پُوچھا:کیا تُجھے اس گھوڑے کی قدر و اہمیت کا علم ہے؟ اُس نے کہا میں نے کبھی اس کی سواری نہیں کی۔آپ نے پہلے دو گنااور پھر تین گُناہ قیمت ادا کر کے اسے خرید لیا۔غلام نے حیرا ن ہوکرپوچھا:حضورآپ نے یہ کیاکیا۔ فرمایا: میں نے رسُولِ اکرمﷺ سے سُنا تھاکہ ”اپنے مُسلمان بھائی کی خیر خواہی کرنا۔

“ وہ شخص اپنی چیز کی اصل قیمت سے نا آشنا مجبُوری میں اسے بیچ رہا تھاتو مجھے آقا کریمﷺ کی بیعت یاد آگئی۔
اسی طرح ارضِ مُقدس اور اسکی عظمت سے مُتعلق فرمانِ آقا ِ دو جہاں سُنایا:” جس زمین پر اللہ کا نام لیا جائے وہ اپنے آپ پر فخر کرتی ہے ، اور زمین کا دوسرا حصّہ اس پر رشک کرتا ہے۔“ انتہائی دلفریب انداز میں واقعہ اُندلس سُناتے ہوئے طارق بن زیاد کی لشکر کشی میں توکّل علی اللہ اور ترکِ سبب واضح کیا۔

بولے:جب طارق بن زیاد نے اُندلس پر لشکر کشی کی اور کشتیاں جلانے لگا تو لوگوں نے کہا یہ کیا: ترکِ اسباب خلافِ شریعت ہے، اور عقل کے منافی بھی۔ وہ مُسکرایا اور بولا: ” ہر مُلک خدا کا ہے، ہر زمین خدا کی ہے، کدھر کی واپسی، فتح یا شہادت۔حکیمُ الاُمّت نے نظم طارق کی دُعا میں اسکی کیا خُوب منظر کشی کی ہے:
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو،
وہ سوز اس نے پایا انہی کے جگر سے
                                                  (علّامہ اقبال)
 تصوّف کی گرہیں کھولتے ہوئے کہا:تصوّف ایک راستہ ہے جس پر چلنادُشوار اور کٹھن ہوتا ہے۔

جس پر مُوت سے پہلے مرناپڑتا ہے۔ اللہ کی کتاب کہتی ہے:”اور تم کسی چیز میں بہتری کے مُتلاشی ہوتے ہو مگر اُس میں خیر نہیں ہوتی،اور تُم کسی شے سے کراہت محسوس کرتے ہو اور وہ تمھارے حق میں بہترین ہوتی ہے، اور وہ (اللہ) بہتر جانتا ہے۔“ محمدبن علی بن حُسین بن علی سے کسی نے پُوچھاتصوّف کیا ہے، تو فرمایا:” اخلاق کو تصوّف گردانتے ہوئے جب کسی کو خود سے اعلیٰ اخلاق والا دیکھو تو اُسے اپنے سے بڑا ولی سمجھو۔

“ اسی طرح بولے: صُوفی ہر چیزکو باطن کی آنکھ سے دیکھتا اور پرکھتا ہے۔کہا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے حضرت سلیمان کے ملکہ سباء کو لکھے گئے خط والی آیتِ قُرانی کی تفسیر میں فرمایا:”اللہ جب کسی دل میں داخل ہو تا ہے تو وہاں مُوجود تکبّر، اَنا،حرص،تعصّب غرض ہر طرح کے بُت پاش پاش کر دیتا ہے۔اور جب کسی دل کو پاکیزہ پاتا ہے تواُدھر گھر بنا لیتا ہے۔

“ فقرو استغناء کے مُبلغ درویش یاد آئے:
نہ تخت و تاج میں،نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
                                                  (علّامہ اقبال)
تاریخِ یونان سے اسکندرِاعظم اور ایک مجذوب درویش کے واقعے سے تزکیہ نفس واضح کیا۔اسکندرِاعظم نے دورہِ ریاست کے دوران ایک درویش کورعونت شاہیِ میں کہا :مانگ کیا مانگتا ہے،سرشارِ مستی مجذوب گویاہوا:تو میرا غلام ہے تو مجھے کیادے گا۔

بادشاہ ششدر رہ گیا۔ درویش بولا:تو اپنے نفس کا غلام ٹھہرا،اور میرا نفس میرے تابع ہے ،یوں تو میرا غلام ہے۔اسکندرِاعظم نے مُتاثرہوکر پھرپُوچھا:مانگ کیا مانگتا ہے۔درویش نے قلندرانہ انداز میں کہا:تو اس وقت میرے اوررب کی نعمت دھوپ کے درمیان حائل ہے وہ چھوڑ دے۔ہند کے درویش نے کیا خُوب کہا تھا:
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے،
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
                                                  (علاّمہ اقبال)
امام زین العابدین کے فہم و فراست کو بیان کرتے ہوئے بولے: امام سے کسی دیوانے نے پُوچھا،کہ ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ زمین میں لگائے جانے والے بیج سے کب اور کتنی بالیاں اُگیں گی۔

امام نے فرمایا: ”آخری زمانے کے جو لوگ آئیں گے،وہ آسمان اور بُلندی سے دیکھ کربتا دیں گے کہ کہاں ،کب اور کیسے کیا ہے۔“ شیخِ جُنید بغدادی کا فقر و زُہد بتاتے کہا: کسی نے شیخ سے پُوچھا توبہ کیا ہے، فرمایا: ” توبہ یہ ہے کہ تُجھے گناہ ہر وقت یاد رہے۔“ پھر دانائے راز یاد آئے:
دگر بمدرسہ ہائے حرم نمی بینم
دل جُنیدو نگاہ غزالی و رازی
                                          (علّامہ اقبال)
(میں نے دنیا کے مکتبوں، مدرسوں میں اسکے بعد،جُنید جیسا دل اور غزالی و رازی جیسی نظرو بصیرت نہیں دیکھی)
اسی طرح خواجہ حسن بصری کے خواہشِ رشتہِ ازدواج پر رابعہ بصریکے ترکِ دُنیا اور طالبِ دُنیا و آخرت کو بیان کرتے ہوئے کہا: ”یہ رشتہ دو مُخالف جنس کا بندھن ہے،طالبِ دُنیا عورت ہے، طالبِ آخرت مرد ہے اورطالبِ دُنیا و آخرت مُخنّس ہے، اوراس لحاظ سے ہم دونوں مرد ٹھہرے۔


 شیخِ ہجویر کی تعلیمات بیان کرتے ہوئے انکا قول سُنایا، بولے:” تم نے اگر اللہ کے بارے میں جاننا ہے تواتنا ضرور پڑھوجتنا کام آ سکے“۔ اسی طرح کسی دیوانے نے سوال کیا کہ شیخرب ظاہر کیوں نہ ہو گیا؟ فرمایا: ” رب اگر ظاہر ہو جاتا،تو دین جبر ہو جاتا۔“ مردِ درویش نے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا:
سیّدِ ہجویرمخدومِ اُمم
مرقد او پیرِسنجر راحرم
                                      (علّامہ اقبال)
 (سیّدنا ہجویراُمّت میں قابلِ تعظیم و تکریم ہیں۔

اور پیرِ سنجرمعین الدین چشتی اجمیری نے آپکے مرقد کی مُقدّس زیارت کی)
خاکِ پنجاب از دمِ اوزندہ گشت
صبحِ ما از مہر او تابندہ گشت
                                      (علّامہ اقبال)
(پنجاب کی زمین آپ کی سانسوں سے زرخیز اور زندہ ہوئی۔اور ہماری صبح آپ کے سُورج(رُوشنی) سے چمکدار ہوئی)
دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے گویا ہوئے: مذہب اور تصوّف کے دو بنیادی اُصول ہیں۔

ایک یہ کہ فقط اللہ جانتا ہے تُم نہیں جانتے۔ دوسرا یہ کہ کسی بھی امر میں اللہ سے آگے یا پہل کی سعی نہ کرو۔ کہادین مُختصر ہے، دو صفات میں، ایک عبادتِ رب میں جو وحدہ لا شریک ہے اور دوسرا عشقِ رسُول ﷺ میں وہ بھی لا شریک ہے۔اور جنھوں نے اللہ اور اُس کے رسُولﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی (یعنی صحابہ کرام) اُن کے خلاف بُولنے سے ڈرو۔ بُولے: اعتدال شیوہِ رسُولﷺ ہے،مُشقت میں خدا نہیں ہے، سوچ میں ہے ، تنظیم میں ہے،اندازِ مُحبت میں ہے، خُلقِ رسُولﷺ میں ہے۔

آخرالذکر فیضانِ سیّدِ ہجویر پُوری آب و تاب سے جاری وساری ہے، بس رحمت کے یہ مُوتی سمیٹنے کا ہُنر اور وصف چاہیے۔جو کہ کشفُ المحجُوب اور تعلیمات کی صُورت میں رُوشنی کے مینارے ہیں۔عاشقِ رسُولﷺصُوفی نے کہا تھا:
مرقدکاشبستاں بھی اُسے راس نہ آیا
آرام قلندر کو تہِ خاک نہیں ہے
                                            (علّامہ اقبال)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :