ستمبر یاستمگر

جمعرات 1 اکتوبر 2020

Engr. Nasir Nazir Ferozpuri

انجینئر ناصر نذیر فیروزپوری

ہند کو خوابیدہ نیند سے بیدار کرنے والے شاعر نے کہا تھا:
 خزاں میں مجھ کو رُلاتی ہے یادِ فصلِ بہار
(اقبال رحمہ اللہ)
ماہِ ستمبر جہاں جنگِ ۱۹۶۵ کی ناقابلِ فراموش ،خون آ شام، فتح سے لبریز اور جرّأت و بہادری کی یادوں کا پیامبر ہے وہیں بہت سے دکھی،دلخراش ،غمگین اور اُداس لمحات و واقعات بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

تاریخی طور پر تو مہینے کا آغاز فرحت بخش اور پُر مُسرّت ہے۔جب جنگِ ستمبر کی فتح اور شہادتوں کے قصّے کہانیاں حُب الوطنی میں اضافہ اور لہو گرمانے کا باعث بنتے ہیں۔
بقول شاعرِ مشرق:
ہو حلقہِ یاراں تو بریشم کی طرح نرم،
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
(اقبال رحمہ اللہ)
ساتھ ہی ستمبر میں سب سے اہم اور وجہِ تخلیقِ کائنات ،سیّد الا نبیاء،مُحسنِ انسانیت، رحمت العالمین،آقا نامدارحضرت محمّدﷺ کی نبوّت پر مُہر ثبت کرتا یومِ ختمِ نبوّت بھی ہے جو حُجّت تمام کر دیتا ہے کہ کریم آقا ﷺ کی ذات خاتم النبیّن ﷺ ہے اور تشکیل و تکمیلِ کائنات کا سبب بھی۔

(جاری ہے)

رُوحانیت اور تصوّف سکھاتے اُستاد کا قول یاد آیا:
 ” پیغمبر ﷺ کی بات باتوں کی پیغمبر ہے۔“ (حضرت واصف علی واصف رحمہ اللہ)
اسی طرح عاشقِ رُسولﷺ نے بھی کہا تھا:
وہ دانائے سُبل،ختمُ الرُسل، مولائے کُل جس نے
غُبار راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
(اقبال رحمہ اللہ)
بانیِ پاکستان کی برسی بھی یاد آئی جس کے بغیر ماہِ ستمبر ادھورا ہے۔

اُس شخص کی جس کو فطرت نے عقل،فہم اور ادراک کے ساتھ ساتھ کردارکی مضبوطی اور بُلندی بھی عطا کی۔جو پہلے پہل برّصغیر میں ہندو مُسلم اتّحاد کا بانیِ کہلایا۔ مگر قدرت نے حالات اور ہندو بنیے کے رویّے سے جس پر آشکار کیا کہ مسلمانوں کے لیے الگ حیثیت اور ریاست ہی برّصغیر کی تقسیم کا مُکمل ایجنڈا ہے۔جن کی دیانت، سچّائی اور نظم و ضبط کے دُشمن بھی مُعترف اور دادِ تحسین دینے پر مجبور۔

جس نے کہا تھا: ” پاکستان اُسی دن ہی وجُود میں آ گیا تھا جب پہلا ہندو مُسلمان ہوا۔“ جسے اُس کے مغربی وضع قطع کے باعث کافرِ اعظم کہا گیا، انگریز کا ایجنٹ بھی۔اُس انگریز کا جس سے اُس نے نہ صرف مُسلمانوں کو ہی بلکہ ہندوؤں کو بھی آزادی دلائی، تاریخ جس کی شاہد اور حال جس کا بہترین عکّاس۔وہ جناح رحمہ اللہ جن سے جب پاکستان بنانے کے بعد پُوچھا گیا تو کہا: ”میں نے اپنا کام پُوری لگن اور دل جمعی سے کر دیا، میرا ثمر یہی ہو گا کہ جب میں بروزِ حشر پیش ہوں تو اللہ اور رُسولﷺ کہہ دیں ویلڈن جناح۔

“اسی طرح تشکیلِ پاکستان کے مراحل میں درپیش مسائل سے مُتعلق سوال پر فرمایا: ” پاکستان ہرگز وجوُد میں نہ آ پاتا اگر اس میں فیضانِ نبویﷺ شامل نہ ہوتا۔“ دانائے راز نے کہا تھا:
نگہ بُلند، سُخن دل نواز، جاں پُرسوُز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
(اقبال رحمہ اللہ)
 زمانے کی دُھوپ چھاؤں،گرمی سردی،خلوت جلوت، رنج و راحت، مُحبت و نفرت میں ساتھ چلنے والے والدِ مُحترم بھی اُنکے یومِ پیدائش پر یاد آئے۔

اس ظالم سماج میں اُنکا سایہِ شفقت، پندو نصائح،مُسکان و شکنیں آندھی اور طوفان میں بادباں کی مثِل تھے۔اپنی کم علمی،کم عقلی ،کم ہمّتی،کم عملی اور کم ظرفی کو غنیمت جانتے ہوئے تربیت کے وہ درخشاں ستارے ذہن نشیں کرتا ہوں جو اُنکی آغوش سے سمیٹ نہ سکا۔سماج شناس شاعر نے کہا تھا:
تربیّت سے تیری میں انجُم کا ہم قسمت ہوا
گھر میرے اجداد کا سرمایہِ عزّت ہوا
(اقبال رحمہ اللہ)
نورِ مُجسّم، رحمتِ دو جہاں، سیّدالانبیاء ﷺ کا حسین فرمان یاد آیا:” والدین کو مُسکرا کر دیکھناحجّّ مبرور کا ثواب ہے۔


اسی طرح فرمایا:”باب جنّت کا دروازہ ہے“
کسی شاعر نے کہا تھا:
 یہ بے سبب نہیں خالی گھروں کے سنّاٹے
مکاں یاد کیا کرتے ہیں مکینوں کو
ستمبر کی مُناسبت سے ۱۱/۹ کا وہ دلخراش واقعہ بھی یاد آیاجس کے بعد ساری دُنیا اور بلخصوص مغرب کی زمیں مُسلمانوں پر تنگ کر دی گئی۔ مغرب ہر طرف سے مُسلمانوں پر ٹڈی دَل کی طرح ٹوٹ پڑااور چند ہزار انسانوں کے قتل کے الزام کی آگ میں انسانوں اور مُسلمانوں کو مُوت کے گھاٹ اُتارنے کا نا تھمنے والا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔

انسانی حقوق اور انصاف کا داعی مغرب انسانیت کے تمام اُصول و ضوابط بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی مُلک میں بادشاہت کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ،کہیں کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کے الزام میں،کہیں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے نام پر،تو کہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کے درد میں انسانوں کے قبرستان بناتا گیا۔مغرب شناس مُفکّر یاد آئے:
جہانِ مغرب کے بُت کدوں میں، کلیساوئں میں، مدرسوں میں
ہوس کی خون ریزیاں چھپاتی ہے عقل عیّار کی نُمائش
(اقبال رحمہ اللہ)
بدلتا موسم بھی اپنے تیور دیکھاتا جاتا ہے۔

صُبح اور رات کو بڑھتی خُنکی اور دن میں حبسِ جاں کی مانند دُھوپ اور حبس۔اس لیے ستمبر ستمگر ہی ٹھہرا۔پھر رُوح کو فرحت اور مُسرّت بخشنے والے شاعر یاد آئے:
یہ آگہی مری مُجھے رکھتی ہے بے قرار
خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار
(اقبال رحمہ اللہ)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :