آزادی کی روح

پیر 16 اگست 2021

Engr. Nasir Nazir Ferozpuri

انجینئر ناصر نذیر فیروزپوری

گُفتا رِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
(اقبال رحمہ اللہ)
اقبال رحمہ اللہ نے فرمایا تھا: ” قومیں شاعروں کے دلوں میں زندہ ہوتی اور سیاست دانوں کے ہاتھوں میں پنپتی یا تباہ ہو جاتی ہیں۔“
قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ آزادی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔

اسکی قدر و منزلت جاننی ہو تو کسی غلام قوم یا شخص کو دیکھ یا سن لیں کہ زندگی کس طرح پل پل اذیت اور کرب ہے۔ ہماری تو تاریخ ہی جہدِ مسلسل اور حریت کی زندہ وجاوید داستان ہے۔قرونِ اولی کے مسلمانوں سے لے کر تحریکِ آزادی پاکستان تک لہو کی وہ عظیم کہانیاں اور ندیاں ہیں کہ جنہیں سُن کر اور پڑھ کر کوئی بھی زندہ دل ، با ضمیر اور حساس انسان فرطِ جذبات سے آبدیدہ ہو ئے بغیر نہ رہ سکے۔

(جاری ہے)


 بڑ ھ کے خیبر سے ہے یہ معرکہء دین و وطن
اس زمانے میں کوئی حیدرِ کرار بھی ہے ؟
(اقبال رحمہ اللہ)
چندسال قبل ۲۱ اپریل کی دوپہر میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں یومِ اقبال رحمہ اللہ کی تقریب کے اختتام پذیر ہونے کے بعدباہر لگے مشاہیر تحریکِ پاکستان کے بورڈ پر کھڑا اپنے عظیم آباؤ اجداد اور راہنماؤں کی تصاویر دیکھ رہا اور تاریخ میں گم تھا کہ ایک بزرگ آئے ، مجھے دیکھ کرغمگین نظروں اور درد بھری آواز میں اپنی سائیکل کا تالا کھولتے ہوئے گویا ہوئے۔

"یہ ہیں اصل رہنما اور زارو قطار رونے لگے اور موجودہ راہنماؤں کو لعن طعن اور مغلظّات سمیت بدعائیں دینے لگے۔
کہنے لگے بیٹا میں نے قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کی تقاریر اپنے والد محترم کے کندھے پر بیٹھ کر سنی ہیں، میں جانتا ہوں پاکستان کس طرح خون کے دریا عبور کر کے تشکیل پایا ہے۔ میں مہاجر ہوں اور ہندوستان سے آیا ہوں ۔ اُن کی اشک بار آنکھوں میں آزادی کی جو چمک ،اُمید اور جنون تھا وہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اور سُنا۔

مجھے اُن کی باتوں اور انہیں دیکھ کر یہ محسوس ہوا اور پتا چلا کہ آزادی کی اصل روح کیا ہے اور ہم اس کا کتنا حق ادا کررہے ہیں۔ اقبال رحمہ اللہ یاد آئے۔
تھے توآباء وہ تمھارے ہی ،مگرتم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ د ھرے منتظر فردا ہو
(اقبال)
میں نہ چاہتے ہوئے بھی اُن سے یہی کہنے میں حق بجانب تھا کہ آپ جو بھی کہہ رہے ہیں صحیح فرما رہے ہیں۔

میں نے ستائش اور خیر کے کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ آپ کو صحت دے اور پاکستان کی خیر ہو۔ کہنے لگے ہاں اچھا وقت ابھی انشاء اللہ دیکھنا باقی ہے اور ضرور دیکھنا ہے۔ کہتے بھٹو آگیا ورنہ خان عبدالقیوم خان آ جاتے ۔ فرطِ جذبات سے کہتے سردار عبدالرب نشتر سائیکل پر دفتر آتے جاتے ، حالانکہ وزیر و گورنر رہے۔
بولے لیاقت علی خان کو ممتاز دولتانہ نے شہید کروایا۔

میں اِن بزرگ کو جاتے ہوئے دیکھ رہااور اس سوچ میں گم تھا کہ کیا ہم نے واقعی آزادی کا حق اداکیا؟ کیا ہم حقیقتاََ قائد رحمہ اللہو اقبال رحمہ اللہ کے وارث ہیں؟ کیا ہم نے اُن لاکھوں شہداء کے خون سے وفا کی؟ کیا ہم نے اُن ماؤں اور بہنوں کی دعاؤں اور قربانیوں کا پاس رکھا؟ تو بدقسمتی سے مجھے ان سوالوں کا جواب سوچتے ہوئے بھی شرمندگی ہوئی۔

میں خود سے شرمندہ تھا ، میں نے جب دیکھا کہ ہم آزادی کا شکر وَن ویلنگ کر کے ، سلنسر نکال کر ، باجے بجا کر ، شورو غُل کر کے، ناچ گانا کر کے ، لوگوں کے لیے کارِ اذیت بن کہ کر رہے ہیں تو مجھے خود سے گھن آنے لگی۔ مجھے اپنے آباؤ اجداد سے معا فی مانگنی پڑی۔ میں شہداء کی ارواح سے شرمندہ ہوا۔
مگر پھر مجھے اچانک اقبال رحمہ اللہ یاد آئے۔ آ پ رحمہ اللہ نے وطن اور آزادی کی اصل روح یاد کرواتے ہوئے تھوڑی غیرت ، ہمت اور اُمید کے چراغ روشن کیے۔
وحدت کی لے سُنی تھی دُنیا نے جس مکاں سے
میر ِ عرب ﷺ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میر ا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :