عندلِیبِ باغِ حجّاز۔ علّامہ مُحمّد اقبال

منگل 10 نومبر 2020

Engr. Nasir Nazir Ferozpuri

انجینئر ناصر نذیر فیروزپوری

 وہ جس کے دم سے لاہور و دہلی ایک ہوئے
آہ اقبا ل ! وہ بلبل بھی آج اُداس ہے۔۔
 صوفی شیخ نور محمد کی بزرگی، ایمانداری اور قلندرانہ خصائص کا ہی اثر تھا کہ اُن کو اللہ رَ بُ العزت نے برصغیر اور مشرق کا وہ قلندر اور مفکرعطا فرمایا جس کے نفس کی حرارت اور روح کی پاکیزگی نے مشر ق ہی نہیں مغرب کے چاردانگِ عالم کو بھی اپنی شاعری سے ایک نئی جہت ، تازگی اور منزل بخشتے ہوئے دوام عطاکیا ۔


 سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
 خرمنِ باطل جلا دے شعلہء آواز سے۔۔!!
                                                          (اقبال)
 ۹نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہونے والے اس بطلِ جلیل ، مردِ درویش اور قلندر کو مفکرِ قوم ، شاعرِ مشرق اور حکیم الامت بننے میں زیادہ عرصہ نہیں لگا۔

(جاری ہے)

آپ کو اللہ عزوجل نے روحانی اور مذہبی صفات سے مزین اور حسین مجموعہ پیدا فرمایا۔

ابتدائی تعلیم کے ایام سے ہی آپ کو مولوی میر حسن جیسے زعماء اور علماء کی سنگت نے کندن بننے میں مدد دی۔ اسی لیے آپ نے بیرونِ ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب نظامِ مغرب کا بھی اتنے قریب سے مطالعہ کیا تو آپ پر حیر ت کے کئی جہاں آشکار ہوتے گئے ۔
 مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں!
 کی اسکی جدائی میں بہت اشک فشانی
                                                    (اقبال)
 حضرتِ اقبال کی شاعری عطرِ قرآن اور تفسیرِ اسلام ہے ۔

جو جو سونگھتا جاتا ہے وہ معطر ہوتا جاتا ہے۔ جیسا کہ بابائے قوم حضرت قائداعظم نے بھی آپ کے بارے میں فرمایا تھا کہ :
"دورِ حاضر میں وہ اسلام کے بہترین شارح تھے، اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کسی نے نہیں سمجھا۔ مجھے اسکا فخر حاصل ہے کہ آپ کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ میں نے اُن سے وفادار اور اسلام کا شیدائی آج تک نہیں دیکھا۔

"
 اسی طرح آپ کے گھریلو خادم (علی بخش) بھی کہا کرتے تھے کہ علامہ اقبال بڑے درویش صفت انسان تھے۔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر جائے نماز پر جا بیٹھتے اور کافی کافی دیر تک آہ و زاری کرتے رہتے تھے۔ (علی بخش،شہاب نامہ)
 اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
 کچھ اس میں تمسخرنہیں، واللہ نہیں ہے
                                                        (زہد اور رندی ، بانگِ درا)
 فکرِ اقبال کا سب سے اہم ترین پہلو جس میں آپ کی شخصیت حد درجہ ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے، وہ توحیدو رسالت ہے۔

آپ کی سید الانبیاء ﷺ سے نسبت ، محبت اور عقیدت اظہر من الشمس ہے ۔
 خرد نے کہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
 دل و نگاہ مسلماں نہیں توکچھ بھی نہیں
                                                (اقبال)
 عشقِ رسولﷺ اور حبِ رسولﷺ اس قدر کہ عقیدت کی کوئی حد نہیں۔
 وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کلﷺ جس نے
 غبار راہ کو بخشا فروغِ وادی ء سینا
                                                  (اقبال)
 قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
 دہر میں اسمِ محمد ﷺ سے اُجالا کردے
                                              (اقبال)
 امامت اور نظامِ حکومت کا درس دیتے ہوئے اُمتِ مرحومہ کو راستہ دکھایا اور اپنی کھوئی ہوئی میراث سے روشناس کرایا۔


 جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
 جدا ہو دیں سیاست سے تور ہ جاتی ہے چنگیزی
                                                    (اقبال)
 اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغر ب سے نہ کر
 خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ﷺ
                                                          (اقبال)
 تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
 حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
 ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
 جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
                                                        (امامت ، ضربِ کلیم)
 اسی طرح نظامِ مغرب کی خر ابیوں اور برائیوں سے امت کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ ء دانشِ فرنگ
 سُرمہ ہے میر ی آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
                                                        (اقبال)
تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام!
چہرہ روشن، اندروں چنگیزسے تاریک تر
                                                            (اقبال)
علم و حکمت کے موتیوں کو روشن کرتے ہوئے مسلمانوں کو تعلیم کے ساتھ کردار کی عظمت کادرس دیا اور نظامِ مغرب کے منفی اثرات اور نقائص کو نمایاں کیا۔


علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
                                  (اقبال)
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی ، نہ محبت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ
                                          (بالِ جبرئیل)
 اوریہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
                                                      (اقبال)
غرض اقبال نے مذہب ، زندگی اور معاشرے کے تما م پہلوؤں کو انتہائی دقیق اور مدلّل انداز میں نمایاں کیا ہے کہ ہر قاری کی تسلی اور تشفی ممکن ہے۔

خرد سے خودی تک، تعلیم سے تربیت تک، دین سے دنیا تک، مہد سے لحد تک، مرد سے مستورات تک حتی کہ زیست کے ہر پہلو کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا کہ آپ کی شاعری ، فلسفے اور امت کیلئے کی جانے والی انتھک جدوجہد آپ کو ہمیشہ زندہ و جاوید رکھے گی۔
سال میں ہم اِک دو بار محفلِ اقبال کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو بھی کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں
                                              (سید ضمیر جعفری)
کاش یہ اُمت اور ملت اقبال کو اسطرح سمجھ ،مان اور جان سکے اور ان کی خدمت محبت اور محنت کا حق ادا کر سکے جس کا تقاضا آپ کی شاعر ی اور شخصیت کرتی ہے۔

کیونکہ جو قومیں اپنے رفقاء اور محسنوں کو بھول جایا کرتی ہیں ، تاریخ ان کو بری طرح مسخ کر دیتی ہے اور اللہ بھی اپنی حجت تما م کر کے فرما دیتا ہے : "یستبدل قوماََ غیرکم"
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف!
                                                    (اقبال)
اقبال تو اپنا حصہ ڈال کر حق ادا کر گئے اور سوئی ہوئی اس امت اور ملت کو پیغام دیتے دیتے چل بسے۔

اب ہر عقیدت مند ، مسلمان اور پاکستانی کا فرض اور نصب العین ہونا چاہئے کہ کس طرح اس حق کو ادا کر سکتا ہے ۔
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا ہوں
میرے مولا # مجھے صاحبِ جنوں کر
                                    (اقبال)    
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے ۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :