داستان سرائے کا مکیں

بدھ 16 ستمبر 2020

Engr. Nasir Nazir Ferozpuri

انجینئر ناصر نذیر فیروزپوری

”بڑے درخت پھل زیادہ نہیں دیتے ،سایہ زیادہ دیتے ہیں۔“
اپنے مُحسنوں، محبوب اور مقبول لوگوں کی کاوشوں،تعلیمات،تحاریر،تقاریر اور فن کو زندہ رکھنا اور یاد کرنا زندہ قوموں کے اجتماعی ضمیر کی علامت ہوا کرتا ہے۔ماڈل ٹاؤن لاہور کے معروف قبرستان میں پرندوں کے لیے موجود پانی پینے کے انتظام کے پہلو میں اردو ادب اور قومی سطح کی یہ عظیم شخصیت آسودہ خاک ہے۔

اشفاق احمد صاحب کی خواہش کے عین مُطابق آپکی قبر کے ساتھ پرندوں کے لیے پانی پینے کا انتظام کیا گیا ہے۔آپ اپنی زندگی کے آخری ایّام میں زاویہ کی مقبولیت کے باعث بابا جی کے نام سے بھی جانے جانیں لگے۔آپ کی اردو ادب کے لیے خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے ناول، افسانہ،ڈرامہ،کہانی نویسی حتّیٰ کہ تصوّف کو بھی ایک نئی جہت بخشتے اور اِن تمام موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے اِن کے زریعے معاشرے کے اکژ پہلوؤں کو اُجاگر کیا۔

(جاری ہے)


۱۹۲۵ء میں پیدا ہونے اور پاکستان ہجرت کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔اے اردو کے علاوہ غیر مُلکی زُبانیں بشموُل اطالوی اور فرانسیسی بھی سیکھیں۔اسی طرح امریکا سے ٹیلی ویژن کی نشر و اشاعت میں بھی مہارت حاصل کی۔اسی بِنا پر جوانی سے ہی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی مختلف نشریات سے وابستہ ہو گئے۔ جس کی مثال اُچی ماڑی جیسا مقبول ریڈیائی ڈرامہ اور ریڈیو پاکستان سے تلقین شاہ پروگرام کا آغاز تھا۔

اسی طرح گاہے بگاہے مختلف سرکاری عہدوں اور اداروں سے مُنسلک رہتے ہوئے مُلک اور ادب کی خدمت سر انجام دی۔
داستان سرائے نے اُردو ادب کو زندہ کرنے اور رکھنے کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ تلقین شاہ ،ایک مُحبت سو افسانے،گڈریا،من چلے کا سوُدا،اُچے بُرج لہُور دے،مہمان سرائے،بابا صاحبا اور زاویہ جیسے شاہکار ڈرامے، افسانے،ناول اور تصوُف پر مبنی تحاریر انسانی مزاج اور شخصیت کو ترتیب دینے میں کلیدی کردارکی حامل ہیں۔

جیسے ’اللہ والے لوگ‘میں مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے کہا:”کہ ہمارے بابا جی کہا کرتے تھے،مسلمان وہ ہوتا ہے جس کا دل صاف اور ہاتھ گندے ہوں“۔جو دُوسروں کے کام آنے اورآنسو پُونچنے والا ہو۔
شاعرِمشرق یاد آئے:
بندہ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے،
 قُوّتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے(علاّمہ اقبال)
’بابوں کی نشانیاں‘ کے موضوع میں بابوں کی سادہ لوح وضع قطع اور تعریف بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر وہ شخص بابا ہو سکتا ہے جو اس فریم ورک کے اندر رہے جو اللہ نے اپنے نبیوں کے زریعے انسان کے لیے طے کر دیا۔

ہمارے اردگرد پھرنے والے بہت سے لوگوں میں ہمیں وہ بابا مل سکتا ہے جس کی ہمیں تلاش ہوتی ہے۔وہ ہمیں فقط اس لیے نظر نہیں آتا کہ ہمارے اُوپر اَنا، تکبّر اور اِستکبارکی گہری تہہ چڑھی ہوتی ہے۔
 دانائے راز نے کہا تھا:
الٰہی سحر ہے پیرانِ خرقہ پُوش میں کیا،
کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں (علاّمہ اقبال)
’اپنے اندر کا سفر‘ پے لب کُشائی کرتے کہتے ہیں کہ اپنی ذات کی گہرائیوں میں وہی اُتر سکتا ہے جو ہر چیز کی انفرادیت کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔

معلوم کی دُنیا کے ساتھ نامعلوم کی بھی ایک دُنیا ہے جو اِس کو تسلیم نہیں کرتا اُسکی سوچ بُہت محدود ہو جاتی ہے،کیونکہ نامعلوم کی دُنیا پھیل جاتی ہے۔’نیک خواہشات ‘ کے عنوان پے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بابے کہتے ہیں اگر کسی موقع پر کوئی موضوع شدّت کے ساتھ زیرِ بَحث ہو اور تم سمجھو کے دلیل سے تم مُقابل کو زِیر کر لو گے تو اپنی دلیل رُوک لو،بندہ بچا لو اسے ذبح نہ ہونے دوکیونکہ وہ زیادہ قیمتی ہے۔


’اُصولوں کے ابلیس‘میں واقعات کی مثالوں سے انسان کو اُصول و ضوابط کے نام پر ابلیس کی مُشابہت سے بچنے ، اپنے فیصلوں اور رویّوں میں لچک پیدا کرنے کا بہترین درس دیا ہے۔ ایک نرس کا طرزِ علاج اور تاثرات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُس نے بتایاکہ میں نے سیکھا ہے کہ انسان زندگی میں خدُاکا گُناہ کرے،بندے کا گُناہ کبھی نہ کرے کیونکہ خُدا کے کسی حُکم کی عدولی کی معافی زندگی کے کسی بھی مُقام پر بھی مانگی جا سکتی ہے لیکن بندے کے ساتھ کیا گیا گُناہ صرف بندہ ہی معاف کر سکتا ہے۔

’ سب دا بھلا ،سب دی خیر‘ جیسے سبق میں ایک اللہ والے کی عاجزی،مہمان نوازی اور قناعت پسندی کو بڑے ہی حسین انداز میں بیان کیا ہے۔
اسی طرح ’شاہی مُحلّے کی ابابیلیں‘ کے موضوع میں ایک واقعہ کے زریعے انتہائی دلفریب اور فطرتی انداز میں ابابیلوں کی تاریخ،اہمیت اور تقدّس کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کاش ہمارے وجود کے ویرانے میں بھی رِحمت کے ایسے ابابیل آ کر آباد ہو جائیں اور گھونسلہ ڈال لیں اور ایسا گھونسلہ کہ پھر وہ ہماری کئی نسلوں تک چلتا رہے۔

آخرالذکّر شہ رگ کا ڈرائینگ رُوم سے قناعت پسندی، علم،فہم اور ہوش سے لے کر رُوح کی سرگوُشی جیسے سماجی،رُوحانی،اور اخلاقی پہلوؤں پر قلم بندی اور گفتگو اشفاق صاحب کی زندگی کے تجربات کا حاصل تھا۔صُوفی اور بابے کی تعریف کرتے کہتے ہوتے تھے کہ صوفی زمین کی طرح عاجزاور ہوا کی طرح دستیاب ہوتا ہے۔ ہمیشہ عاجز اور دستیاب رہنے کی سعی کرو۔۷ ستمبر۲۰۰۴ کو ادب کا یہ باب بند ہو گیا۔
نبض شناس اقبال نے کہا تھا:
حدیث بندہ مومن دل آویز،
جگر پُر خوں،نفس روشن، نگہ تیز(علاّمہ اقبال)
باباجی کہا کرتے تھے:
”بڑے درخت پھل زیادہ نہیں دیتے ،سایہ زیادہ دیتے ہیں۔“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :