عشق تمام مُصطفیٰﷺ،عقل تمام بو لہب

جمعرات 7 جنوری 2021

Engr. Nasir Nazir Ferozpuri

انجینئر ناصر نذیر فیروزپوری

ہند کے صوفی نے کہا تھا:
جاتا ہوں میں حضوررسالتﷺپناہ میں
لے جاؤں گاخوشی سے اگرہوکوئی پیاّم
(علّامہ محمّد اقبال رحمہ اللہ )
عقیدہ توحید و رسالت دین کی اصل اور اساس ہے۔ با الخصوص سیرتِ رسولﷺ مُکمل ضابطہ حیات اور عملی نمونہ ہے۔اک مُدّت سے داخلی اور خارجی سطح پے مسئلہ عقیدہ رسالت اور حُرمتِ رسولﷺکی حسّاسیت اور نذاکت کو سمجھے بغیرموضوعِ بحث، (نعوذباللہ) تنقید اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

اندرونی لوگوں کی کم علمی،جانبداری اور لادینیت سے لے کر غیروں کی سازشیں خواہ وہ خاکوں،کارٹونز یا پوسٹرزکی صورت ہوں متواتر جاری رہیں۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں زرا،
روحِ مُحمّدﷺاس کے بدن سے نکال دو
 (علّامہ محمّد اقبال رحمہ اللہ )
اُمتِ مُسلمہ کی اکژیت اور عشقِ رسولﷺسے لبریز مسلمان فقط صدائے احتجاج بُلند اور اپنی ناتوانی کا رونا روتے رہے۔

(جاری ہے)

اس حبسِ بے جااور مایوسی کے عالم میں اندرونی و بیرونی استعمار کو للکارنے اور حُرمتِ رسول ﷺودین کی خدمت کا موقع ملناباعثِ شرف و اِفتخارتھا۔اللہ نے اُمتِ مسلمہ اور باالخصوص ارضِ وطن میں یہ موقع اس معذورشخص کو دیا جس کا نام علّامہ خادم حسین رضوی تھا۔
وہ مردِ آہن تنِ تنہا اس خارزارِ جہاں میں عبداللہ بن اُبئی،میر جعفرو صادق اور یہود و ہنودکو للکارتا رہا۔

عشق وحرمتِ رُسول ﷺ،فکرِاقبال رحمہ اللہ اور حب ّالوطنی کے جذبے سے سرشاروہیل چئیر پر بیٹھے اس شخص نے اپنی معذوری کو بھی کبھی اپنی جدوجہد کے آڑے نہیں آنے دیا۔اک عرصے سے مذہب کے اُفق پر جلوہ گراُس شخص نے دین اور حُرمتِ رسولﷺکے لیے اپنوں،بیگانوں،ریاست اور طاغوتی طاقتوں کے ستم اور وار خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔ عقوبت خانو ں کی صعوبتیں جھیلیں،گرمی و سردی کے موسمی حالات اور سفری مشکلات کا سامنا کیا۔

مگر اُس کے پائے لغزش میں زرا سی بھی لڑکھراہٹ اور مصلحت نہ آئی۔حکیم الاُمّت یاد آئے:
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہّ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
(علّامہ محمّد اقبال رحمہ اللہ )
انہوں نے اسلام کے مُقدّس ایّام،حُرمتِ انبیاء،شان و دفاعِ صحابہ، شہادتِ کربلا او ر عظمتِ اولیاء عظّام کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔

اسی طرح پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے تحفّظ کا بیڑہ اٹھاتے ہوئے فکرِ اقبال رحمہ اللہ کے گوشوں سے مُلکی فضاء کو مُعطر و مُنوّر کرتے رہے۔اُردو اور فارسی شاعری پر حد درجہ عبور کی بدولت آسان الفاظ میں قوم تک پیغامِ اقبال رحمہ اللہ پہنچاتے رہے۔اسی طرح عربی گرامر اور صرف و نحو کے حافظ و قاری ہونے کے باعث تاریخِ اسلام اور قرونِ اولیٰ کے واقعات اس حسین انداز میں سُنا تے کہ عام سادہ لوح مُسلمان بھی اس منظر کا تصوّر کیے بغیر نہ رہ پاتا۔

تلخ اور شدید الفاظ کے باعث انہیں اکژ ناقدین اور مُخالفین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ جس پر وضاحت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ میرایہ غضب اور غصّہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ دین اور ناموسِ رسالت کے غدّاروں اور دُوشمنوں کے لیے ہے۔میں اسلام اور حُرمتِ رسولﷺ کے خلاف ہونے والے کسی بھی اقدام پر خاموشی اور نرم گوشہ رکھنے سے عاری ہوں۔
اُن کے الفاظ سے اختلاف،جوشِ خطابت پرتنقید،فقہی رنجش، سیاسی عدو،ذاتی حسد مگر بہ حیثیت ایک مسلمان اور پا کستانی اس شخص نے اسلام با الخصوص حُرمت و نامُوسِ رسولﷺ اورپاکستا ن کی نظریاتی اساس و فکرِ اقبال رحمہ اللہ کے لیے اپنی معذوری کے با وجود بہت تگ و دو کی۔

اتنے مذہبی راہنماؤں،پیروں ،گدی نشینوں اور سیاسی شعبدہ بازوں کے ہجوم کے باوجود بھی یہ مُقام اس شخص کے حصّے میں آیا۔وہ اکثر کہا کرتے تھے: ”عشق اپنے فیصلے کرنے میں بڑا دلیر ہوتا ہے۔ “ اسی طرح عاشقِ رسولﷺ علّامہ مُحمّداقبال رحمہ اللہ کے وہ تاریخی الفاظ یاد آئے جو انہوں نے علم الدین شہید رحمہ اللہ کے جنا زے کے مُوقع پر ادا کیے تھی:” کہ ہم جیسے پڑھے لکھے اور دعوے دار تو فقط باتیں کرتے ہی رہ گئے، لوہاروں کا بیٹا عشقِ رسولﷺ میں بازی لے گیا۔

“ مجھ جیسے کئی کم علم،کم عمل اور عاصی فقط دین اور حبِّ رسولﷺ کا دعوٰی کرتے رہ گئے اور ایک وہیل چیئر پر بیٹھا ظاہری معذور اور با عمل مولوی اور مُولانا اصل حق ادا کر گیا۔ پھر بیسوی صدی کے مُجدّد یاد آئے:
بمصطفیٰﷺ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اونر سیّدی ،تمام بو لہبی است
(علّامہ مُحمّد اقبال رحمہ اللہ )
( میری ذات کا تعلق آپﷺ سے ہے،کیونکہ سارا دین آپﷺ کی ہی ذات ہے۔ اگر میں آپﷺ کی ذات تک نہ پہنچ پایاتومیں بھی ابو لہب کی طرح بُت پرست ہی رہا۔)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :