کشمیر پنجہء یہود و ہنود میں - اور عالمی ضمیر نام کی چڑیا

پیر 26 اکتوبر 2020

Engr. Nasir Nazir Ferozpuri

انجینئر ناصر نذیر فیروزپوری

آ ج و ہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
(علامہ اقبال)
جنت نظیر و ادیء کشمیر سات دہا ئیوں سے بھارتی ظلم و بربریت اور عفریت کا شکار ہے۔ اب تک کشمیر ی لاکھوں ماؤ ں اور بہنوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ کوئی دن ، کوئی گھنٹہ یا لمحہ نہیں جب کشمیر ی بھارتی غنڈہ گردی کا نشانہ نہ بنے ہوں۔

لاکھوں ماؤں، بہنوں کی عصمت دری سے لے کر آگ و خون کے کئی دریا عبور کر چکے ہیں۔ کشمیریوں کی آہ وبقا اور سسکیاں دنیا کے لوگوں کو نہیں جگا سکیں۔ کوئی اقوام ِ متحدہ اور عالمی ضمیر نام کی چڑیا میدانِ عمل میں نہیں آئی اور اگر آئی بھی ہے تو فقط نعروں ،بیانات اور قراردادوں کی حد تک ۔
اقوامِ متحدہ اپنے وجود کا مقصد اور چارٹر پر عمل درآمد کروانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے کہ ہر انسان کو مذہبی ، جغرافیائی اور لِسانی آزادی حاصل ہے۔

(جاری ہے)

عالمی کمیونٹی اور طاقتیں بھی اس مسئلے میں خاموش تماشائی کے سو ا کچھ بھی نہیں۔ کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آج تک استصوابِ رائے سے محروم ہے۔یہ سراسر مذہبی تعصب اور منافرت کی مثال ہے۔ کیونکہ تاریخ شاہد ہے کے اقوامِ متحدہ اور عالمی طاقتیں کسی بھی مسئلے بالخصوص جہاں مسلمان یا اسلامی ریاست ہو، خوش اسلوبی سے حل کروانے میں ناکام رہی ہیں۔

جیسے ڈاکٹر یونس بٹ صاحب نے کہا ہے: "چھوٹی قوم کا مسئلہ ہو تو مسئلہ غائب ہو جاتا ہے اور بڑی قوم ہو تو اقوامِ متحدہ غائب ہوجاتی ہے۔" اسی لیے مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کی ساکھ ، اختیار اور بقا پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔اسی طرح عالمی سیکولر دنیا کے منہ پر بھی زناٹے دار تھپڑ اور داغ ہے جو کہ انسانی حقوق ، مساوات اور حتی کہ حیوانوں کے حقوق کے سب سے بڑے دعوے دار اور بلند وبانگ نعرے لگاتے اور اپنا چورن بیچتے ہیں۔


ماضی قریب ہی گواہ ہے کہ بریگزٹ جیسے فیصلے ایک ہی دن میں استصوا بِ رائے سے حتمی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں اور کسی کو اعتراض تک نہیں ہوتا۔کوئی اقوامِ متحدہ اور عالمی ضمیر اس پر معترض نہیں ہوا۔ کسی نے اس کو برطانیہ کی شدت پسند سوچ اور یورپی یونین کی سیاسی بصیرت کی کمی سے تشبیہ نہیں دی، کیونکہ اس میں طاقتور قوم ،عیسائی مذہب اوراُن کا انتخابی نظام شامل تھا۔

جب کہ کشمیریوں کا نصف صدی سے زائد عرصہ سے یہی مطالبہ اور جدوجہد ہے ،مگر کسی عالمی طاقت کے کان پر جو ں تک نہیں رینگی۔ اسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ما ضی قریب میں اسرائیل میں امن معاہدے کے نام پر یہودی آباد کاری کو پروان چڑھایا۔ کسی نے بھی اس عمل پہ مزاحمت نہیں کی۔ کسی نے نہیں کہا کہ پہلے یہ مسئلہ اقوامِ متحدہ میں اٹھایا جائے۔
اسی طرح ماضی بعید میں برطانیہ اور سکاٹ لینڈ میں علیحدگی کے لیے استصوابِ رائے ایک ہی دن میں ہو گیا اور سکاٹ لینڈکی اکژیت نے برطانیہ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔

ایک ہی دن میں ایک ریاست نے ایک ملک کے ساتھ ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا ۔اور اگر یہی بات پاکستانی یا کشمیری کریں یا کرنے کی خواہش کا اظہار کریں تو شدت پسندی کا طعنہ دیا جاتا ہے۔آخرالذکر کشمیر کے مسئلے کا حل مسلمانوں کے اتحاد اور بھارت کی بدنامی سے ممکن ہے۔ بھارت معاشی اور داخلی طور پر کمزور ہوگا تو مسئلہ کشمیر کو تقویت مل سکتی ہے۔ وگرنہ اقوامِ متحدہ اور عالمی ضمیر نام کی چڑ یا کچھ نہیں ہوتی۔

اور انکے بیانات ،دعووں اور وعدوں کے پیچھے رہنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
 بقولِ اقبال
دنیا کوہے پھر معرکہء روح وبدن پیش ،
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا،
اللہ کو پا مردیء مومن پہ بھروسہ،
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :