ادبی ساکھ،کتاب اور لکھاری..

بدھ 1 دسمبر 2021

Esha Saima

عیشا صائمہ

ہر قوم کا ادب اس کے خیالات و افکار اور نظریات پر مشتمل ہوتا ہے-ہمارا ملک چونکہ ایک نظریئے کی بنیاد پر وجود میں آیا-اس لئے اس میں اس کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے - شروع کے مصنفین نے بھی اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے وہ کچھ لکھا جو انہوں نے دیکھا اور محسوس کیا-پاکستان بننے سے لے کر اب تک ایسے ادیب سامنے آئے جنہوں نے مسلمانوں میں شعور کے ساتھ ان مسائل کو بھی اجاگر کیا جس کا عمیق مشاہدہ ان کی ذات نے کیا- اور ایسے موضوعات کو انہوں نے چنا جس سے ان کا نام بنا ایک پہچان بنی-
رفتہ رفتہ ادب میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں بھی آئیں لیکن کوشش یہ ہی رہی کہ ادب میں ثقافت کے عظیم ورثے کو زندہ رکھا جائے-یوں ادب کے فروغ میں پرانے اور نئے ادیب شامل ہوتے گئے-
جنہوں نے بہت عمدہ ادب تخلیق کیا- جس سے انکار ممکن نہیں-دور حاضر میں بھی بہت سے نئے قلم کار سامنے آرہے ہیں-ان کے لئے پہلے سے ایسا ادب موجود ہے جس سے وہ رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں-لیکن ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنے ملک کے نظریئے اور ثقافت کو ساتھ لے کے چلیں-
وہ جو کچھ لکھ رہے ہیں اس میں مثبت سوچ کو پروان چڑھا کر منفی خیالات اور منفی عمل کو رد کرنے کی ضرورت ہے-
نئے قلم کاروں کو ایسے اچھوتے اور فکر انگیز موضوعات کو سامنے لانے کی ضرورت ہے- جو کردار معاشرے میں موجود ہیں- ان پر قلم اٹھا کر خود کو منوا سکتے ہیں-پہلے انہوں نے اپنی ایک پہچان بنانی ہے- ایک اچھی ساکھ کی بدولت ہی وہ اچھے ادیبوں کی فہرست میں آسکتے ہیں-اور جب انہیں لگے کہ وہ ایک کتاب شائع کروانا چاہتے ہیں  
تو اس میں جلدی کی بجائے سوچ سمجھ کر کسی اہم موضوع کو  منفرد انداز میں لکھ کر اسے اشاعت کے لئے بھجوائیں- جو ان کی ادبی ساکھ کو قائم رکھے-اور وہ کسی نقصان کے محتمل نہ ہوں - بلکہ اپنے آپ کو ایک بہترین قلم کار یا ادیب کی صورت میں سامنے لا سکیں - ایسے آپ کو اپنی تخلیقات پر پذیرائی بھی ملے گی - اور قارئین کی بڑی تعداد آپ کی کتب خریدنے کی طرف نہ صرف مائل ہونگے بلکہ آپ کی کتب کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :