سال نو اورمسلمان

پیر 3 جنوری 2022

Esha Saima

عیشا صائمہ

دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تہوار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے رائج ہیں ۔ ہر  تہوار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تہوار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے - تہوار منانے کا مقصد اچھی باتوں کو اپنانا اور غلط باتوں سے اجتناب کرنا ہے-
نیا سال منانے کی روایت عیسائیوں سے چلی آرہی ہے - یوں سمجھ لیجیے  نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلی آرہی ہے-
لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم نے پورے سال میں کون سی کوتاہیاں کیں-اور کون سے  برے کام کیے-کون سی غلطیاں ہم سے  سرزد ہوئیں اور ان غلطیوں کو ہم کیسے سدھار سکتے ہیں -کیونکہ  ہماری زندگی کا ایک سال کم ہو گیا ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ زندگی جیسی نعمت کو کیسے گزار رہے ہیں - کیا ہم نے اپنی زندگی کے تلخ تجربات سے کچھ سیکھا؟ خوشگوار لمحوں کو ہم نے کیسے گزارا؟ کیا خوشی ملنے پہ ہم نے رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا - کیا بے شمار نعمتوں کے ملنے پہ ہم میں عاجزی اور انکساری پیدا ہوئی یا ہم غرور میں مبتلا ہو کر دوسروں کی زندگی کو اجیرن کر نے میں مصروف ہیں - اور جب غم ملا تو ہمارا رویہ کیسا تھا چونکہ خوشی اور غم دونوں زندگی کا حصہ ہیں ان دونوں صورتوں میں ہم نے کیسے عمل کو اپنایا جو ہمارے رب نے ہمیں راستہ بتایا اس پہ چلے یا خرافات میں پڑ گئے-
آج بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی سوچ اور عمل کو اپنے رب اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے - کیونکہ وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بے پناہ محبت رکھتے تھے-ان کا طرز عمل کیسا تھا؟ ہمیں اس طرزعمل کو اپنانے کی ضرورت ہے-
ہمیں اپنے عمل سے  یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم اپنے رب سے ملاقات کے خواہاں ہیں - اور اس کے لئے تیاری بھی کر رہے ہیں اسی زندگی میں ہم نے اُس زندگی کی بھی تیاری کرنی ہے-اور آخرت کی فکر کرتے ہوئے اعمال صالح کو اپنانا ہے آج ہم نے طے کرنا ہے کہ اپنے عمل کو آقائے دو جہاں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کے مطابق ڈھالنا ہے اور کوشش کرنی ہے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں سے سیکھ کر دوبارہ انہیں دہرانے کی بجائے اچھے اور مثبت عمل کو اپنانا ہے تاکہ ہماری دنیا کے ساتھ آخرت بھی بہتر ہو سکے-
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیاں عمل سے بھرپور تھیں انہوں نے رب تعالیٰ اور اپنے پیارے آقائے دو جہاں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کا عملی ثبوت دیا-
زندگی محض جیے جانے کا نام نہیں بلکہ ایسے گزارنے کا نام ہے جس میں مسلمان کا ہر عمل رب تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہو-
"حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکتا" ۔

(جاری ہے)

(قیمة الزمن عند العلماء، ص: ۲۷)
"حسن بصری  فرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزرگیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔"
یہ عمر اور زندگی جو ہمیں عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت  کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بناسکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بناسکیں۔
"حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔

"
نئے سال میں خرافات کی بجائے  بعض کتب حدیث میں یہ روایت نگاہوں سے گذری جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتا تھے: ”اللّٰہُمَّ أدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍمِّنَ الشَّیْطَانِ“ (المعجم الاوسط للطبرانی ۶/۲۲۱ حدیث: ۶۲۴۱ دارالحرمین قاہرہ) ترجمہ:" اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام او راپنی رضامندی نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔

"
بحیثیت مسلمان ہمیں اس دعا کو پڑھنا چاہیے اور دو باتوں پر توجہ دینی چاہیے - (۱) ماضی کا احتساب کرنا چاہیے ہم سے کیا کوتاہیاں ہوییں (۲) آگے کا لائحہ عمل کہ ہم نے کیسے ان کوتاہیوں سے سبق سیکھ کر خود کو باعمل مسلمان بنانا ہے -
نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
اس لئے  حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کو یقینی بنانا ہے -  ہمیں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا ہے  کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں اور کیسے ہم ان کو ٹھیک کر سکتے ہیں -
کیونکہ یہ زندگی ایک بار ہی ملی ہے اور دنیا میں ہمارے آنے کا مقصد رب تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ معاملات پر بھی توجہ دینا ہے - ہم اپنا محاسبہ خود کر سکتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں ہم سے کیا گناہ سرزد ہوئے اور کیسے مستقبل میں ان سے بچا جا سکتا ہے-
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ”حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا“۔

(ترمذی ۴/ ۲۴۷ ابواب الزہد، بیروت) ترجمہ: "تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔"
 اسی کو اللہ جل شانہ نے اپنی کتاب قرآن پاک میں ایک خاص انداز سے ارشاد فرمایا ہے: ”وَأنْفِقُوْا مِنْ مَا رَزَقْنَاکُمْ مِنْ قَبْلِ أنْ یَأتِيَ أحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلاَ أخَّرْتَنِيْ إلیٰ أجَلٍ قَرِیْبٍ فَأصَّدَّقَ وَأکُنْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ، وَلَنْ یُّوٴَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا إذَا جَاءَ أجَلُہَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ“۔

(سورئہ منا فقون، آیت/ ۱۰،۱۱)
ترجمہ: "اور جو کچھ ہم نے تمھیں دے رکھا ہے، اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو وہ کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہوجاوٴں ۔ اور جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے پھر اسے اللہ تعالی ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالی اچھی طرح باخبر ہے۔

"
انسان خطا  کا پتلا ہے اس سے غلطیاں ہو جاتی ہیں کوئی غلطی سرزد ہو جائے یہ برا عمل ہے لیکن اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور مسلسل اس غلطی یا گناہ کو کرتے رہنا نہ صرف رب کی ناراضگی کا باعث ہے بلکہ دنیا و عاقبت دونوں کو
برباد کرنے والی بات ہے کہ آپ کو ایک مہلت دی گئ لیکن آپ نے اس کو ضائع کر دیا - اس لئے دنیا اور دین دونوں معاملات میں اس سوچ و فکر کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ ہم نے بحیثیت مسلمان رب تعالیٰ کی احکامات کی پیروی کرنی ہے اور یہ ہی ہمارا مقصد بھی ہے - اس وقت کو جو ایام، مہینوں اور سالوں پر مشتمل ہے - اس کو غنیمت جان کر اس سفر کی مکمل تیاری کرنی ہے تاکہ ہم رب تعالیٰ سے ملاقات کے وقت شرمندہ ہونے کی بجائے سرخرو ہو سکیں - اسی بارے میں ایک حدیث بھی ہے -
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ“۔

(مشکاة المصابیح ۲/۴۴۱ کتاب الرقاق)
ترجمہ: "پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
 آخرت کی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اسی دنیا کے اعمال پر منحصر ہے۔

جیساکہ ارشاد ربانی ہے:” وَأنْ لَیْسَ لِلإنْسَانِ إلاَّ مَاسَعٰی، وَأنَّ سَعْیَہ سَوْفَ یُرٰی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الأوْفیٰ“۔ (سورئہ نجم، آیت/ ۳۹،۴۰،۴۱)
ترجمہ" اور ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی، اور بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔"
 کچھ واقعات مختلف کتابوں میں درج ہیں جن سے مسلمانوں کے نیے سال کی تفصیلات کا پتہ چلتا ہے جو کہ درج زیل ہیں -
مسلمانوں کا نیا سال جنوری سے نہیں بل کہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جو ہو چکا ہے اور ہم میں سے اکثروں کو اس کا علم بھی نہیں۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں؛ اس لیے کہ ہماری تاریخ یہی ہے؛ چونکہ ہر قوم اپنی تاریخ کو کسی خاص واقعے سے مقرر کرتی ہے؛ اس لیے مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو خلیفہٴ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کے دورِ خلافت میں حضرت علی المرتضیؓ کے مشورے سے واقعہ ہجرت سے مقرر کیا ۔
ہمیں ہجری سن دوسرے مروجہ سنین سے بہت سی باتوں میں منفرد نظر آتا ہے ہجری سال کی ابتدا چاند سے کی گئی اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑاگیا-تاکہ چاند کو دیکھ کر ہر علاقے کے لوگ خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں یا جنگلوں میں، شہروں میں بستے ہوں یا دیہاتوں میں؛ نیز دور دراز جزیروں میں رہنے والے حضرات بھی چاند دیکھ کر اپنے معاملات بہ آسانی طے کرسکیں اور انھیں کسی طرح کی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔

نہ اس میں کسی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے اور نہ کسی مادی سبب کی احتیاج ہے۔ اسلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مساوات ہے او رایک خصوصیت ہمہ گیری بھی ہے، اسلام نے ان خصوصیات کی حصانت و حمایت میں یہ پسند فرمایا کہ اسلامی مہینے ادلتے بدلتے موسم میں نہ آیا کریں۔ ذرا اسلام کے رکن چہارم ماہ رمضان کے روزوں پر غور کرو کہ اگر اسلام میں شمسی مہینہ مقرر فرمادیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لیے آسانی میں اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لیے تنگی و سختی میں پڑجاتے۔

پس اسلام کی مساوات ِجہاں گیری کا مقتضا ہی یہ تھا کہ اسلامی سال قمری حساب پر ہو۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: والشَّمسَ والقمرَ حُسبانا۔ حُسبانا بالضم مصدر ہے جو حساب کرنے اور شمار کرنے کے معنی میں آتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی نے آفتاب و ماہتاب کے طلوع وغروب اور ان کی رفتار کو ایک خاص حساب سے رکھا ہے جس کے ذریعے انسان سالوں، مہینوں، دنوں اور گھنٹوں کا؛ بل کہ منٹوں اور سکنڈوں کا حساب بآسانی لگا سکتا ہے یہ اللہ جلَّ شانُہ ہی کی قدرتِ قاہرہ کا عمل ہے کہ ان عظیم الشان نورا نی کروں او ران کی حرکات کو ایسے مستحکم اور مضبوط انداز سے رکھا کہ ہزاروں سال گذرجانے پر بھی ان میں کبھی ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا، یہ دونوں نور کے کرے اپنے اپنے دائرے میں ایک معین رفتار کے ساتھ چل رہے ہیں: ”لا الشمس ینبغی لہا أن تدرک القمر ولا اللیل سابق النہار“ ہزاروں سال میں بھی ان کی رفتار میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا، قرآن کریم کے اس ارشاد نے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ سالوں اور مہینوں کا حساب شمسی بھی ہو سکتا ہے اور قمری بھی دونوں ہی اللہ تعالی کے انعامات ہیں یہ دوسری بات ہے کہ عام ان پڑھ دنیا کی سہولت اور ان کو حساب کتاب کی الجھن سے بچانے کے لیے اسلامی احکام میں قمری سن وسال استعمال کیے گیے او رچوں کہ اسلامی تاریخ اور اسلامی احکام سب کا مدار قمری حساب پر ہے؛ اس لیے امت پر فرض ہے کہ وہ اس حساب کو باقی رکھے۔

دوسرے حسابات شمسی وغیرہ اگر کسی ضرورت سے اختیار کیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں؛ لیکن قمری حساب کو بالکل نظر انداز او رمحو کردینا گناہ عظیم ہے جس سے انسان کو یہ بھی خبر نہ رہے کہ رمضان کب آئیگا اور ذی الحجہ اور محرم کب ۔ (معارف القرآن ۳/۴۰۲،۴۰۳)
نیز حضرت تھانوی  لکھتے ہیں: چونکہ احکام شریعت کا مدار حساب قمری پر ہے؛ اس لیے اگر ساری امت دوسری اصطلاح کو اپنا معمول بنالے جس سے حسابِ قمری ضائع ہوجائے تو سب گنہگار ہوں گے اور اگر وہ محفوظ رہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی مباح ہے؛ لیکن سنتِ سلف کے خلاف ضرور ہے اور حساب قمری کا برتنا بہ وجہ اس کے فرضِ کفایہ ہونے کے لا بُد افضل و احسن ہے۔

(ماخوذ از بیان القرآن ص: ۵۸ ، ادارئہ تالیفات اشرفیہ پاکستان) اس لیے ہمیں اپنی اس تاریخ قمری کو یکسر فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
اسلئے زندگی کا سورج غروب ہونے سے پہلے ہمیں اپنے حال کو درست کرنا ہے تاکہ ہماری آنے والی زندگی بہترین ہو سکے اور ہم دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں -
 دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو غیروں کی مشابہت سے بچائے اور آقائے دو جہاں محمد مصطفیٰ  صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی اتباع کی مکمل توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :