کرونا وارننگ

پیر 30 مارچ 2020

Fatima Bilal

فاطمہ بلا ل

آج کل ہر طرف کرونا وائرس کی باتیں اور اس کی دہشت عام ہے اس وائرس کا خوف اتنا ہے کہ اکثر ممالک اپنی عوام کو گھروں میں بند کر چکے ہیں ہر طرف اس وائرس کا خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے مگر یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس وائرس سے موت تو بعد میں ہوتی ہے مگر خوف سے پہلے ہی ہو جاتی ہے میں کل ایک ویڈیو دیکھ رہی تھی جس میں ایک لڑکے کو سٹریچر پر لیٹنے کا کہہ رہے تھے مگر اس بچے نے رو رو کر اپنا برا حال کیا ہوا تھا بے شک یہ ایک خطرناک وائرس ہے مگر بہت سے لوگ اس وائرس کو شکست دے چکے ہیں اس لئے اپنے گھر والوں کو گائیڈ بھی کریں کہ اللہ نہ کرے یہ وائرس اگر آپ کو ہوجائے تو ہمت کریں اللہ ہی شفاء  عطا کرنے والا ہے  اور لوگ ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں مگر ہمارے یہاں وائرس سے تو معلوم نہیں مگر خوف سے ضرور موت ہوسکتی ہے میں نے کہیں پڑھا تھا تحقیق کرنے والوں نے ایک شخص پر تحقیق کی جسے سزائے موت سنائی جاچکی تھی اسے ایک بند کوٹری میں لے جایا گیا اور اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور اس کو بتایا گیا کہ تمہیں کوبرا سانپ سے ڈسوایا جائے گا پھر اس شخص کو ایک سوئی چبھائی گئی اور واقعی ہی اس شخص کی موت ہوگئی اس شخص کے جب خون کا ٹیسٹ لیا گیا تو واقعی  اس شخص میں کوبرا سانپ کا زہر پایا گیا یعنی اس کے دماغ میں پہلے ہی تھا اس کو کوبرا سانپ سے ڈسوا دیا جائے گا جس کی وجہ سے اس کی موت ہوجائے گی اس کے دماغ نے وہ زہر اس کے جسم میں بنا دیا اس لیے اپنے دماغ پر کنٹرول رکھیں اور یقین رکھیں کرونا وائرس کو بھی ہم شکست دے سکتے ہیں
بہرحال اب آتے ہیں اصل ٹوپک کی طرف یہ وبا کہاں سے آئی نہیں معلوم البتہ ایک دوسرے پر الزام ضرور لگائے جا رہے ہیں کچھ کہنے والے کہہ رہے ہیں یہ امریکہ کی سازش ہے جو اس نے چین کی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے رچائی ہے  اور کچھ اسے چین کی اپنی ہی سازش قرار دے رہے ہیں کہ اس سازش کے ذریعے چین بین الاقوامی کمپنیوں کے دام گرانے اور کم قیمت پر انہیں خریدنے کی کوشش کرے گا  اب یہ آفت خود کی پیدا کردہ ہے یا آسمانی ہے اس کا فیصلہ میں آپ لوگوں پر چھوڑتی ہوں مگر کل بہاولپور  کے گردونواح میں کرونا وائرس کی شکل میں اولے گرنا یا تو یہ ایک محض اتفاق ہے یا پھر آسمان کی طرف سے اشارہ ہے کہ زمین پر اس کے بندوں کے ساتھ جو ظلم کیا گیا یہ اس کی چھوٹی سی سزا ہے تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ جب تمہیں گھروں میں بند کیا جاتا ہے تو کیسا لگتا ہے کشمیر کے کرفیو پر خاموش رہنے والے چاہے مسلم ہوں یا غیر مسلم اب بھی سنبھل جائیں آپ غور کریں کہ کاف سے ہی کشمیر اور کاف سے ہی کرونا ہے دنیا نے خود اس وائرس کو کرونا کا نام دیا اور قرآن کہتا ہے کہ عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم عقلمندوں میں سے ہوتے ہیں یا جاہلوں میں سے آپ دنیا کے حال پر نظر دوڑایں آخر زمین بھی ظلم کب تک برداشت کر سکتی تھی آپ فلسطین پر ہونے والے ظلم کو دیکھیں سیریا میں مسمار ہوئے گھروں کو دیکھیں اور ان گھروں کے نیچے دبی پوری پوری فیملیز کی لاشیں دیکھیں آپ کشمیر میں جاری کرفیو کو دیکھیں جوان بچوں کی لاشیں دیکھیں وہاں کی عورتوں پر ظلم ہوتا دیکھیں آپ برما پر نظر دوڑائیں کیسے مسلمانوں کی لاشوں کو  ٹوکوں کے ذریعے ان کو کاٹا گیا اور ان کے ٹکڑے کیے  گئے کیسے ان کے خون پیے گئے گوشت کھایا گیا آپ چیچینیا اور بوسینیا پر ہونے والے ظلم کو دیکھیں اور سوچیں کیا یہ وبا آسمانی نہیں لگتی اور اگر زمین پر ایسے ہی ظلم ہوتا رہا تو ایسے وائرس اب آتے رہیں گے کرونا جائے گا تو اس کا بھائی سِرونا آجائے گا یا پھر اس کی بہن مِرونا بھی آجائے گی اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا جب تک کہ زمین پر ظلم و بربریت جاری رہے گی
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے جس کا مفہوم ہے مومن آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں جب جسم کے ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو پورا بدن اس کی تکلیف محسوس کرتا ہے اگر آپ غور کریں تو یہی بنیاد ہے مگر آج افسوس اس بات کا ہے کہ اس فرمان کو ہم سب بھول بیٹھے ہیں اور اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہیں مگر بحیثیت مسلمان میرا یقین ہے کہ ایک دن انشاءاللہ مسلمان جائیں گیں اور اپنے مظلوم بہن بھائیوں کی مدد کریں گے کیونکہ کشمیر کا کاز ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس پر کے تمام مسلم حکمران یک زبان ہوکر کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر میں ظلم کو بند کیا جائے اور جلد از جلد اس کو آزاد خطہ قرار دیا جائے تمام مسلم حکمران آپسی اختلافات کو بھلا کر اور مفاد سے بالاتر ہوکر اکٹھے ہو سکتے ہیں اور یہی کشمیر مسلم حکمرانوں کے اتحاد کا پلیٹ فارم ثابت ہوگا اور پھر دنیا دیکھے گی اگر مسلم دنیا کے حکمرانوں کا آپس میں اتحاد و اتفاق ہوگیا اور یہ سب واقعی ایک جسم کی مانند ہوگئے تو یہی وہ امت ہے جس کو اللہ تعالی نے دنیا کی امامت کے لئے پسند و منتخب کیا اور قرآن کہتا ہے اور اللہ کا دین غالب ہوگیا اور کفر مغلوب ہوگیا اور کفر تو تھا ہی مٹنے کے لیے
 اب یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم نے آخر کرنا کیا ہے کیونکہ تقریبا ہم سب ہی موت کو قریب سے دیکھ چکے ہیں اب یہ آپ پر ہے کہ اس کرونٹائین یا اس وائرس کے ختم ہونے کے بعد آپ یہ سب بھول جاتے ہیں یا اپنا گول سیٹ کرتے ہیں کہ جب تک زندہ رہیں گے جہاں کہیں ظلم ہوگا اس کے خلاف آواز بلند کریں گے اور کشمیر جب تک آزاد نہیں ہو جاتا تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے
کیوں کہ قرآن مجید میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ اگر تم مظلوم کی داد رسی نہیں کرتے اور اپنے دینی بھائیوں کی مدد کے لیے نہیں آتے تو تمہارے مال و دولت بیویاں اور  بیٹے تمہیں اللہ کی راہ میں نکلنے سے روکے ہوئے ہیں تو اللہ کی فیصلے یعنی اللہ کے عذاب کا انتظار کرو اور وہ عذاب کرونا وائرس کی صورت میں اس دنیا پر نازل ہو چکا ہے لہذا دنیا کے تمام ملکوں کے حکمرانوں کو مل بیٹھ کر یہ سوچنا ہوگا کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر ظلم چاہے کہیں بھی ہو رہا ہو اس کو بزور بازو روکا جائے تاکہ اللہ کے کرونا وائرس جیسے عذابوں سے چھٹکارے کی کچھ صورت بن سکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :