حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح حیات اور آپکی تعلیمات

منگل 28 ستمبر 2021

Fatima Bilal

فاطمہ بلا ل

آپ کا اسم گرامی 'علی' ہے ابو الحسن آپ کی کنیت ہے اور داتا گنج بخش آپ کا مشہور ترین لقب ہے۔
حتیٰ کہ اکثر لوگ آپ کو آپکے نام ''علی'' کی بجائے آپ کے لقب ''داتا گنج بخش'' سے ہی جانتے ہیں۔ آپ افغانستان کے مشہور شہر غزنی میں 400ھ کے لگ بھگ میں پیدا ہوئے۔
آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے: سید ابو الحسن علی ہجویری بن سید عثمان بن سید علی بن سید عبدالرحمن بن سید عبداللہ (سید شاہ شجاع) بن سید ابو الحسن علی بن سید حسن اصغر بن سید زید بن سید امام حسن مجتبیٰ بن امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فی الجنہ ورحمہم اللہ اجمعین۔


آپ کی ولادت ننھیالی گھر غزنی کے محلہ ہجویر میں ہوئی جس وجہ سے آپ کو ہجویری کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد حضرت سید عثمان رحمة اللہ علیہ جید عالم عظیم فقیہ اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے۔

(جاری ہے)

آپ کی والدہ بھی بہت عابدہ زاہدہ اور پارسا خاتون تھیں۔ آپ کے ماموں زہد و تقویٰ اور علم وفضل کی وجہ سے ''تاج العلمائ'' کے لقب سے مشہور تھے۔
آج بھی آپ کے ماموں حضرت تاج العلماء کا مزار اقدس غزنی میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔


آپ کا گھر علم و فضل اور روحانیت کا گہوارہ تھا اور غزنی شہر بھی ان دنوں علوم و معارف کا مرکز تھا یہ سلطان محمود غزنوی کا دور تھا جو علم دوست بادشاہ تھے اور غزنی شہر میں علماء اور مدارس بھی بکثرت تھے بلکہ سلطان محمود غزنوی نے خود بھی غزنی شہر میں ایک عظیم الشان مدرسہ اور ایک عظیم مسجد تعمیر کی تھی۔
چنانچہ آپ کے والدین اور ماموں حضرت تاج العلماء نے آپ کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی چار سال کی عمر میں آپ نے قرآن مجید سے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔

اپنے والدین سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے علاوہ نہ صرف غزنی شہر بلکہ تاشقند، سمر قند، بخارا، فرغانہ، ماوراء النہر، ترکستان، خراسان، توس، نیشا پور، مہنہ، قہستان، مرو، سرخس، فارس، کرمان، بیت المقدس، شام و عراق، آذر بائیجان، طبرستان، خورستان، سوس، ہندوستان اور دیگر متعدد بلاد و ممالک کے سفر کئے اور ممتاز علماء و صوفیاء سے اکتساب علم و فیض کیا۔


کشف المحجوب میں فرماتے ہیں میں نے خراسان میں تین سو علماء سے ملاقاتیں کیں۔ آپ نے اپنے کثیر اساتذہ میں سے خصوصی طور پر شیخ ابو العباس احمد اشقانی رحمة اللہ علیہ اور شیخ ابوالقاسم علی گور گانی رحمة اللہ علیہ کا بڑے ادب وعقیدت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔ آپ نے تمام مروجہ علوم معقول و منقول میں کمال حاصل کیا۔ وعظ و ارشاد، درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے علاوہ مناظرہ میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا آپ مسائل فقہیہ میں امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمة اللہ علیہ کے مقلد تھے۔


آپ نے سلوک کی منازل کی تکمیل کے لیے اس دور کے سلسلہ جنیدیہ کے جلیل القدر روحانی پیشواء اور متبحر عالم دین حضرت شیخ ابو الفضل محمد بن حسن جنیدی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ارشاد فرمائی۔ جو ملک شام میں دمشق اور بانیار کے درمیان بیت الجن نامی ایک بستی میں رہتے تھے اور جہاں پر اب ان کا مزار ہے.
حضرت داتا رحمة اللہ علیہ خود حنفی المذہب تھے لیکن طریقت میں آپ نے حنبلی المذہب شیخ ابوالفضل ختلی رحمة اللہ علیہ کی بیعت کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اکابر اولیاء امت کے قلوب فقہی اختلافات کے باوجود تعصبات سے پاک تھے۔


حضرت شیخ ابو الفضل ختلی رحمة اللہ علیہ صاحب کشف و کرامات جلیل القدر ولی اللہ، متبحر عالم، عارف اکمل، شریعت مطہرہ کے سخت پابند اور زہد و تقویٰ میں یگانہ روزگار تھے۔ آپ سالکین کو کم کھانے کم خوابی اور کم بولنے کی تلقین فرماتے تھے۔ آپ نے جبل لکام میں ساٹھ سال طویل چلہ کشی فرمائی۔
حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے پیر و مرشد کے وصال کے وقت آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔

آپ نے فرمایا: ''بیٹا! میں تمہیں عقیدے کا ایک مسئلہ بتاتا ہوں اگر تم نے اس پر عمل کرلیا تو ہر قسم کے رنج و تکلیف سے بچ جائو گے۔
یاد رکھو کہ ہر جگہ اور ہر حال اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد تیرے لئے مناسب ہے کہ نہ تو اس کے کسی فعل پر انگشت نمائی کرے اور نہ ہی دل میں اس پر معترض ہو اس کے علاوہ آپ نے اور کچھ نہ فرمایا اور جاں بحق تسلیم ہوگئے۔

''
یہ 455ھ تھا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت داتا رحمة اللہ علیہ لاہور قیام کے دوران کچھ عرصہ (تقریبا 2 سال) کے لئے شام اپنے پیرو مرشد کے پاس چلے گئے تھے اور 455ھ میں ان کے وصال کے بعد پھر لاہور واپس آگئے تھے۔
آپ غزنی میں لوگوں کی تعلیم و تربیت اور عبادت و ریاضت میں مشغول تھے کہ خواب میں پیر و مرشد حضرت شیخ ختلی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:
اے فرزند تمہیں لاہور کی قطبیت پر مامور کیا جاتا ہے اٹھو اور لاہور جائو۔

فرماتے ہیں میں نے عرض کیا میرے پیر بھائی شیخ حسین زنجانی قطبیت لاہور پر مامور ہیں ان کی موجودگی میں اس عاجز کی کیا ضرورت ہے۔
ارشاد ہوا ہم سے حکمت دریافت نہ کرو اور بلاتوقف لاہور روانہ ہوجائو۔
چنانچہ داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ 431ھ میں لاہور تشریف لائے اس وقت لاہور کا نام لہانور تھا۔ یہ سلطان محمود غزنوی کے بیٹے سلطان مسعود غزنوی کا دور تھا۔

پنجاب اگرچہ غزنی حکومت کا جز تھا لیکن لاہور پر اس وقت ہندو مذہب اور ہندو تہذیب چھائی ہوئی تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں طویل سفر کے بعد جب لاہور پہنچا تو رات کا وقت تھا اور لاہور کے دروازے بند ہوچکے تھے۔
علی الصبح میں لاہور میں داخل ہوا تو شیخ زنجانی کے جنازہ کا بڑا انبوہ دیکھا اور شیخ زنجانی کی وصیت کے مطابق میں نے نماز جنازہ کی امامت کی۔

یاد رہے کہ بعض تبصرہ نگاروں نے آپ اور شیخ زنجانی رحمة اللہ علیہ کے پیر بھائی ہونے کی نفی کی ہے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ ملفوظات خواجہ نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ کتاب فوائد الفواد شریف میں ان دونوں بزرگوں کا پیر بھائی ہونا صریحاً مذکور ہے۔
جہاں آج آپ کا مزار اقدس ہے اس وقت یہ جگہ دریائے راوی کے کنارے پر تھی اس جگہ آپ قیام پذیر ہوئے اور سادہ سی مسجد و مدرسہ پر مشتمل خانقاہ کی بنیاد رکھی اور یہی خانقاہ بعد میں برصغیر کی تمام خانقاہوں، مدارس اسلامیہ اور اسلام کی اشاعت و تعلیم و تربیت کی بنیاد ثابت ہوئی ....
 آج ہمارے معاشرے کا یہ ایک المیہ ہے کہ ہم اپنے اسلاف اور بزرگان دین کی کرامات اور ان کے فضائل و مناقب تو بہت بیان کرتے ہیں جبکہ ہم نے  ان کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے
 داتا صاحب کی تعلیمات کو اگر تفصیلا بیان کیا جائے تو کئ دفاتر نقل کیے جاسکتے ہیں لیکن یہاں میں آپ کی دی ہوئ تعلیمات پر  مختصراً روشنی ڈالنا ضروری سمجھتی ہوں  
آپ  کی تعلیمات کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں
آج کے اس پر فتن دور میں بے شمار ایسے جاہل اور علم دشمن لوگ منصب طریقت پہ براجماں ہو گئے..
یہی وجہ ہے کہ وہ اس منصب کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں.. جبکہ اگر ہم حضور داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کو دیکھیں تو آپ کی مایہ ناز تصنیف کا آغاز ہی " اثبات علم " کے باب سے ہوتا ہے..
اور آپ پھر اس آیت کو بھی لکھتے ہیں...
انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء
اللہ کے بندوں میں سے علم والے ہی اس سے ڈرتے ہیں
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اللہ سے علم نافع کے حصول کی دعا فرمایا کرتے تھے.
کیونکہ علم کے ذریعے آدمی ایمان و یقین کی دنیا آباد کرتا ہے، بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، بُروں کو اچھا، دشمن کو دوست، بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہے
حضور داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
" صوفی وہ ہے جس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے ہاتھ میں سنتِ رسولﷺ۔

",
لہذا جو قرآن و سنت پر عمل نہیں کرتا وہ نہ تو صوفی ہو سکتا ہے اور نہ ہی رہبر یا پیر.. بلکہ طریقت کے لیے سب سے پہلا اور بنیادی اصول ہے قرآن و سنت کی پیروی ...اور جو شخص شریعت مطہرہ کا پابند نہیں وہ اس لائق نہیں کے اس کو منصب طریقت یا ولایت پر بٹھایا جائے
یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئ خود کو اللہ اور اسکے رسول کا محب کہے اور پھر ان کے احکامات سے انحراف کرے لہذا آپکی تعلیمات کا ایک بنیادی پہلو اللہ اور اسکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے
حضرت داتا صاحبؒ فرماتے ہیں ،جب تک بندہ اس دنیا میں نفس اور خواہشات ِ نفس کے چنگل سے نہیں نکلتا معرفت سے سر فراز نہیں ہو سکتا۔

فرماتے ہیں کہ نفس کی مخالفت تمام عبا دتوں کا سر چشمہ ہے۔نفس کو نہ پہچاننااپنے کو نہ پہچانناہے ،جو شخص اپنے کونہیں پہچانتا،وہ خدا کو نہیں پہچان سکتا ۔نفس کا فناہو جانا حق کی بقا کی علامت اور نفس کی پیروی حق عزوجل کی مخالفت ہے ۔نفس پر جبر کرنا یعنی نفسانی خواہشوں کو روکنا جہا دِ اکبر ہے۔حضرت داتا گنج بخشؒ نے تین قسم کے لوگوں سے دور رہنے کی ہدا یت فرمائی ہے ۔

غافل علما سے ،جنہوں نے دنیا کو اپنے دل کا قبلہ بنا لیا ہو۔ریاکار فقرا سے، جو فقط اغراضِ نفسانی کے لیے لوگوں سے جاہ وعزت کی تمنا رکھتے ہوں اور جاہل صوفی سے، جس نے نہ تو کسی مرشد کی صحبت میں رہ کر تربیت پائی ہو،نہ کسی استاد سے ادب سیکھا ہو۔
حضور داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات میں سے ایک اہم چیز مخلوق خدا سے محبت ہے..
ایک صوفی اور مولوی کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے کہ مولوی لوگوں کو ان کے عقائد و نظریات اور مذہب و مسلک دیکھ کر پرکھتے جبکہ صوفی بارش کے اس قطرے کی مانند ہے جو ہر جگہ برستا ہے,,اگر وہ زرخیز مٹی پر برسے تو اسکو مزید زرخیز بنا دیتا ہے اور بنجر زمین پر برستا ہے تو وہاں بھی سبزہ اگا دیتا ہے ..
,صوفی رنگ و نسل, ذات پات, مذہب و مسلک سے مبرأ ہو کر مخلوق خدا کے دل میں جگہ بناتا ہے یہی وجہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں جو کام صوفیاء نے کیا وہ ملاں نہ کر پائے
علامہ اقبال فرماتے ہیں!
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلا کی اذان اور ہے مجاھد کی اذان اور
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
صوفی کی طریقت میں فقط مستی احوال
ملّا کی شریعت میں فقط مستی گفتار
حضرتِ سَیِّدُنا داتاگنج بخشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےپوری زندگی خوب مَحَبَّت ولگن سے خدمتِ دین کا کام سرانجام دیاا،دُکھی اِنْسانِیَّت کو امن و سکون کا پیغام دیا اور اپنے مریدین ومحبین  کی دینی ودنیاوی حاجتوں کو پورا فرمایا۔


آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا وصالِ پُرملال اکثر تذکرہ نگاروں کے نزدیک ۲۰صفرالمظفر ۴۶۵ھ کوہوا
 آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا مزارمنبعِ انواروتجلیات مرکزالاولیا لاہور(پاکستان)میں بھاٹی دروازے کے بیرونی حصے میں ہے،
اسی مناسبت سے لاہور کو مرکز الالیا اور داتا نگر بھی کہا جاتا ہے۔
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے وصال کوتقریباً 900 سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا ,امسال آپکا 978 عرس مبارک انتہائی عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے , آج بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے مزارِ فائض الانوار میں رہ کراپنے عقیدت مندوں کی حاجت روائی فرماتے، ان کی پریشانیاں  حل فرماتے  اوراپنے روحانی فیضان سے جسے چاہتے ہیں مالامال کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :