تھوڑا کڑوا ہے مگر سچ ہے

منگل 8 جون 2021

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

آئے روز عوام کی موٹرسائیکلوں  چوری کی  خبریں پڑھ پڑھ کر ذھن اُکتا سا گیا تھا،،،، ایک دن سوچا چلویہ تجربہ ایک دن خود بھی کر کے دیکھتے ہیں،،،، چونکہ صحافتی ذمہ داری نبھاتے ہوئے صبح سے رات ہوجاتی ہے،،،،، بڑی مشکل سے اتوار کا انتظار کیا۔ باآخر وہ دن آ ہی گیا جس کا شدت سے انتظار کر رہا تھا۔۔۔
مگر صبح ہی بیگم نے بتایا کہ کئی ہفتوں قبل وعدہ کیا تھا کہ چُھٹی والے دن بچوں سمیت نا صرف سُسرال چلیں گے بلکہ ساحل سمندر کے قریب بھی کچھ وقت گزارنے کا ارادہ تھا۔

۔  چونکہ پورا ہفتہ اسی بے چینی  میں گزرا کہ شہر قائد سے اتنی آسانی سے موٹر سائیکلیں کیسے چوری ہوجاتی ہیں اس کا عملی تجربہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار بھی تھا،،،،، سو بیگم کے ہاتھ میں کچھ رقم  رکھی کہ وہ خود اپنے طور گھر چلی جائے اگر کام سے جلدی فراغت مل گئی تو لینے آجاوّنگا،،،،، بیگم نے غصّیلی نگاہوں سے دیکھا وہ سمجھ گئی کہ اب کسی طور اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے والا نہیں۔

(جاری ہے)


 طے شدہ پلان کے تحت موٹر سائیکل نکالی اورشاہراہ فیصل پر موٹر سائیکل سے اُتر گیا  پیدل چلتا رہا،،،، کسی نے نہیں پوچھا ماسوائے دفاتراور سیلز کا کام کرنے والے چند موٹرسائیکل  سواروں نے،،، کسی نے دھکا لگا کر پیٹرول پمپ لے جانے کی آفر دی  تو کسی نے اپنی جیب پیسے دے کر پیٹرول خریدنے کی صلاح دی،،تو کسی نے اپنی موٹر سائیکل روک کر پوچھا  کوئی خرابی ہوگئی ہے تو بتا دیں مکینک تک چھوڑ آتا ہوں،،،، چونکہ میں تقریبآ کئی گھنٹوں سے اِدھر اُدھر پھر رہا تھا اس پر آشوب شہر میں نوجوانوں  کا تعاون دیکھ کر کچھ شرمندگی بھی محسوس  ہوئی سو شاہراہ فیصل چھوڑ کر دوسرے علاقے میں چلا گیا،، صبح سے شام تک اسی طرح کئی علاقوں میں بائیک سمیت پیدل سفر کیا،،،، اس دوران کئی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی دیکھا اور موٹر سائیکل میں وردی چھپائے کئی جوان بھی،،،،،،،،،، صبح سے رات ہوگئی مگر کسی نے روک کر نہیں پوچھا کے بھائی کدھر جا رہے ہو موٹر سائیکل کس کی ہے،،،،، تمہارے پاس لائسنس یا کاغذات ہیں بھی یا نہیں،،،، عجیب سی کشمکش میں گھر آیا تو گیٹ پر ہی بیگم میری منتظر تھی،،،،،،،،، کپڑوں کا حال دیکھ کر بھانپ گئی کہ آج کسی لمبے مشن پر گیا تھا،،، نہا دھو کر کھانے کی ٹیبل پر آتے ہی پہلا سوال جڑ دیا کہ موصوف آج صبح سے کدھر تھے،،۔

میں نے تمام تر حال من و عن  گوشوار کر دیا کہ آئے دن شہر سے موٹرسائیکلیں چوری ہوجاتی ہیں اور کئی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ موٹرسائیکلوں کو چوری کرنے والا بڑے آرام سے پیدل یا کسی موٹر سائیکل سے کھینچ کر بڑے آرام سے لے جاتے ہیں کوئی نہیں پوچھتا،،،،،کوئی سوال نہیں کرتا کہ بھائی کس کی موٹر سائیکل ہے اور آپ کے پاس کاغذات ہیں بھِی یا نہیں،،،
چونکہ آج خود تجربہ کرنے کا ارادہ تھا،، شہر کے مختلف راستوں پر ایسے ہی سفر کیا مگر قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے نے کوئی سوال نہیں کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سوال سن کر بیگم نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا،،،، چونکہ وہ  "ہوم منسٹر"  تھی اُسے بھی اختیارات تھے کہ اپنی ماہرانہ رائے سے مفید جواب دے،،،،، گوشوار کیا کہ یہ بُھولے بادشاہ یہ جواب ہم سے ہی طلب کر لیتے،،۔۔  "ہماری آدھی سے زیادہ فورس تو مراء اور شرفاء کی  سیکوریٹی پر مامور ہے اور باقی ماندہ ٹکرا اسی کُھوج میں لگا ہوا ہے کہ کہیں ایس او پیز کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی یا کسی نے دکان تو نہیں کھولی ہوئی،،،، تو شہر میں ہونے والی ڈکیتیاں اور لوگوں کی موٹرسائکلیں یا کار چوری کرنے والے گروہ کو پکڑنے کا وقت کس کے پاس ہے۔" ۔۔۔ بس وہیں میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ اِتنی سی بات سمجھنے کے لئے نا صرف پورا دن ضائع کیا بلکہ اپنے اہل خانہ کو شدید پریشان کیا۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :