کراچی جس کو منی پاکستان، میگا سٹی اور میٹروپولیٹن سٹی کے نام سے پکارا جاتا ہے جسے سب سے بڑے شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہیں یہ خطہِ زمین پر بسنے والے بڑے بڑے شہروں میں شمار کیا جاتا ہے کُرہ ارض پر 3780 کلومیٹر حدود و اربعہ رکھنے والا ٹکرا جس میں باضابطہ طور پر کوئی دِیوار حائل نہیں کی گئی تاہم یہاں کے مقامی باشندوں جن کا تعلیم ، روزگار جینا مرنا اور تمام کاروباری و سماجی تعلقات اسی شہر تک محدود ہیں کا غیر مرئی طور پر تمام تر بنیادی وسائل جس میں تعلیم، روزگار، سرکاری ٹرانسپورٹ، سڑکیں، ہسپتال، پانی، گیس ، صحت و صفائی جسے محروم کر کے نا صرف دیوار سے لگایا جا رہا ہے بلکہ ان کے معاشی وسائل پر قبضہ کر کے جنگی قیدیوں جیسا سلوک رواں رکھا جاتا ہے شہر میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور غنڈہ گردی اور بھّتہ خوری سے ایک عام انسان کو یہ سوچنے پر مجبُور کر دیا ہے کہ وہ ایسے شہر میں زندگی بسر کر رہا ہے جہاں حاکمیت صرف قانون شکن عناصر کی ہے جہاں دن دھاڑے چھینا جھپٹی کی وارداتوں ، ڈکیتی کے ساتھ ساتھ آبروریزی کے دل دھلا دینے واقعات نے ہر خاندان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ منِی پاکستان کا درجہ رکھنے والے شہریوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک رواں رکھ کے صرف اور صرف یہاں کے مقامی باشندوں کو بڑے تسلسل کے ساتھ پیچھے دھکیلا جا رہا ہے تاکہ وہ ہمیشہ مظلوم اور محکوم طبقہ بن کر صرف اور صرف افرادی قوت کا حصّہ بن سکے نا کہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہو کر کسی اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہو سکیں جس کے لئے تقریبآ تین کروڑ کی آبادی رکھنے والے شہر کی آبادی جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کو بھی کم دکھا کر وہاں کے وسائل پر قابض ہوکر اپنی حاکمیت برقرار رکھ سکیں جس کے باعث یہاں کی مقامی آبادی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے ایسے دلدل میں پھنستی چلی جا رہی ہے اس احساس محرومی کے بڑھتی ہوئی سوچ کے نتائج جلد یا بدیر خطرناک صورت میں ظاہر ہوسکتے ہیں جعلی ڈومیسائل کے ذریعے دیہی علاقوں کے غیرمقامی افراد کو سرکاری اور نیم سرکاری سمیت اہم سول عہدوں پر فائز کرنے سے مقامی شہریوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں جس کا سدباب شائد کراچی کی دعوے دار ہر جماعت تو زبانی کلامی بیان بازیاں تو کرتی ہیں مگر عملی طور پر اقدام صرف اِسی لئے نہیں اٹھایا جاتا کیونکہ اگر کراچی کے مظلوم و محکوم عوام کو تمام بنیادی وسائل مہیا کر دیئے جائیں تو شائد اپنے حقوق کے لئے ان کے سیاسی جلسے جلوسوں میں جھنڈے اور نعرے لگانے کے لئے افراد کی تعداد کم پڑ جائے، گذشتہ کئی دھائیوں سے نت نئ سیاسی شعبدہ بازیاں، کرتب اور سیاسی منجن عوام میں ایک اُمید بیدار کر دیتا ہے شائد ہم نہیں تو ہماری نسل ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ اور بے روزگاری اور چھینا جھپٹی کے واقعات سے محفوظ رہ سکتی ہے بلاشبہ یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو حکومت وقت کی ذمہ داری ہے وہ اپنی ٹیکس دینے والے عوام کو مہیا کرتی ہے۔
(جاری ہے)
مگر ماسوائے پوش علاقوں کو چھوڑ کر شہر قائد کے تمام علاقوں میں گندگی غلاظت کے پہاڑ قائم ہیں جو صحت مند معاشرہ قائم رکھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جنہیں جان بوجھ کر حل کرنے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا جاتا۔ کراچی کے معاشی وسائل پر قبضہ کر کے وہاں کے مقامی آبادی کو محصورین کیمپ کی طرح قید کر کے رکھ دیا ہے جو اپنے بنیادی حقوق مانگنے کے باوجود محروم نظر آتے ہیں۔ اگرچہ کراچی کے مقامی پڑھے لکھے باشندے محکمہ پولیس، اسسٹنٹ کمشنرز، سیکشن آفیسرز، رجسٹرار، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکالت، پراسیکیوٹرز، لیکچرار سمیت دیگر دفاعی اداروں کے امتحانات میں بھرپور حصّہ لے رہے ہیں مگر ان کی بڑی تعداد کامیابی کے نتاسب میں کمی بہت سے نتائج کو مشکوک بنا دیتی ہے کیونکہ کراچی کے یہ ہی باشندے متعلقہ شعبوں میں دوسرے ممالک میں جا کر اپنی صلاحیتوں بھرپور لوہا منوا رہے ہیں مگر اپنے ہی شہر میں بنیادی وسائل و نوکریوں کا حصّول نا ہونا یتیمی کے احساس کو اجاگر کرتا ہے۔ معاشی وسائل اور مہنگائی کے باعث نوجوان لڑکیاں اور خواتین بھی فیکٹریوں اور دیگر نجی اداروں میں کام کرنے پر مجبور ہوگئیں ہیں جہاں اکثر و بیشتر افسران یا اسٹاف کی جانب سے جنسی ہراسگی سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم روزگار اور معاشی مسائل ، روزگار اور عزت کے ڈر کے یہ واقعات منظر عام پر نہیں آتے تاہم یہ لاوہ اندر ہی اندر پک رہا ہے کہ کراچی کے مقامی باشندوں کے ساتھ انتہائی نارواں اور غیر انسانی سلوک رواں رکھا جا رہا ہے اگر اس احساس محرومی کا تدارک نا کیا گیا تو اس نتائج کسی اچھی صورت میں سامنے نہیں آسکتے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔