کراچی سیف سٹی وقت کی اہم ضرورت

جمعرات 20 جنوری 2022

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

دُنیا کے بڑے ممالک کی بات کریں تو وہاں منظم کرائم کے علاوہ سول کرائم جس میں ٹریفک وائلیشن اور چھوٹے موٹے جرائم بھی نا ہونے کی حد تک ہیں چونکہ انسانی فطرت میں ازل سے شر کی فطرت پائی جاتی ہے جس کی روک تھام کے لئے انسان کو ہی ٹیکنالوجی کی بدولت ایسی سہولیات مہیا کرنی چاہئے کہ اگر اس سے چھٹکارا ممکن نہیں تو کم از کم  تدارک کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہئیں۔

کراچی جو کم و بیش 3 کروڑ کی آبادی پر  مشتمل ہے۔ پورے سندھ کا دل ہونے کے ساتھ پورے ملک کا معاشی حب بھی یہ شہر کہلاتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے جرائم خاص کر منشیات اور چھینا چھبپٹی کی وارداتوں کے ساتھ موٹرسائیکل اور گاڑیاں چوری کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے جس کی ہر ممکن اقدامات کرنے کے باوجود بھِی کمی نا لائی جاسکی ۔

(جاری ہے)

گذشتہ برس کراچی میں 2094 ہزار کے قریب گاڑیاں جبکہ 50841 ہزار کے قریب موٹر سائیکلیں چھین یا چوری کر لی گئیں۔

گذشتہ برس ہی شہریوں سے 25188 ہزار کے قریب قیمتی موبائل فون چھین لئے گئے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جن میں رپورٹ ہوئی ہزاروں ایسے واقعات ہیں جس میں شہری پولیس اسٹیشن جانے یا شکایت درج کرانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اگر صرف اوپر کے واقعات میں ریکوری کا ریشو دیکھیں تو صرف 5 فیصد سے بھِی کم  نظر آتا ہے گذشتہ سال کی نسبت رواں ماہ ہی  ڈکیتی اور چوری کی وارداتوں میں بتدریج اضافہ اور گذشتہ برس تین بینک ڈکیتی کے ساتھ خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے کو ملا  متعدد وارداتوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آنے اور اسٹریٹ کرمنلز کے چہرے واضح ہونے کے باوجود قانون کی گرفت میں نا آنے کے باعث  نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں منیجمنٹ سسٹم میں مینوئل پروگرام کی اہمیت ختم ہوچکی ہے جس کے باعث کراچی میں سیف سٹی پروجیکٹ کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے CPLC طرز کا ایمرجنسی ریپانس سینٹر قائم کیا جائے۔

کراچی میں سی پی ایل سی کا ادارہ بہت فعال کام کر رہا ہے کراچی میں سی پی ایل سی 1989 کو قائم کیا گیا سرکاری طور پر 15 اپریل 1990 کو فعال کیا گیا۔ سی پی ایل سی کی اہم ذمہ داریاں جن میں پولیس کمپلینٹ سیل ,ایف آئی آر، میڈیکو لیگل موبائل فون چھینا، چوری اور ریکوری ،ایف آئی آر ڈیٹا بیس ،جیل کے قیدیوں کا ریکارڈ گاڑیوں، موبائل فونز اور افراد کی تصدیق کے لئے ڈیٹا فراہم کرنا، مارکیٹ کے ساتھ ہم آہنگی میں غیر قانونی تجارت کی حوصلہ شکنی کرنا، اغوا، بھتہ خوری، دھمکی اور ڈکیتی کے حوالے  قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرنا، پولیس اور عینی شاہدین کی مدد سے ملزمان کے خاکے ڈرائنگ بنانا ، فرار و گمشدہ افراد کی تلاش اسنیپ چیکنگ ،ٹریفک مینجمنٹ, تنازعات کے متبادل حل ،چارج شدہ پارکنگ پروجیکٹ پڑوس کی دیکھ بھال مرکزی گاڑیوں کا ریکارڈ ،لاشوں  کی شناخت میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں لئے ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا جز بن چکا ہے۔

کراچی میں سیف سٹی پراجیکٹ بنانے کے بعد  ٹریفک کو بھِی کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا اس پروجیکٹ کے ذریعے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کو چالان آن لائن بھیجے جاسکتے ہیں جس کے باعث کرپشن کی لاکھوں روپے جیبوں میں جانے کے بجائے حکومتی خزانے میں جمع ہوگی۔ ای چالان میں فائدہ یہ ہوگا کہ بلاتفریق امیر و غریب کے لئے ایک قانون ہوگا۔

اس کے ساتھ ساتھ ٹریفک حادثات میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے اور نان کسٹم پیڈ اور چوری کی گاڑیوں میں ملوث افراد کی حوصلہ شکنی میں مدد مل سکتی ہے۔ کراچی سیف سٹی پراجیکٹ سے بچوں یا کسی بھی مسنگ کے حوالے سے ایک بہت اچھی مدد مل سکتی ہے۔کراچی سیف سٹی ایک خواب نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کیونکہ لاہور سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں سیف سٹی پراجیکٹ کامیابی سے اپنا کام کر رہا ہے جس کے باعث جرائم کی روک تھام میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔

شہر قائد میں پولیس اور عوام فاصلہ کی وجہ یہ ہی کہ شہری نالاں رہتے ہیں کہ پولیس مدد نہیں کرتی اور پولیس کے بیان کے مطابق شہری تعاون نہیں کرتے بہرحال پولیس اور عوام کے درمیان جو خلا موجود ہے وہ کراچی سیف سٹی پراجکیٹ کے قیام کے باعث مثبت پیش رفت کا حامل ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :