آزادی صحافت میں خطرے کی گھنٹی

بدھ 2 فروری 2022

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

دنیا بھر میں جہاں شعبہ صحافت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے حالت جنگ میں بھی کسی صحافی خواں کسی بھی مسلک و مذہب سے تعلق ہو عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے شعبہ صحافت سے وابستہ افراد بنا رنگ و نسل، فرقہ و مذہب کے غیر جانبداری سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں۔ ادارہ چاہے صوتی برقی یا کاغذی پیغام رسانی کا ذریعہ ہو ایک ہی پس منظر کا حامل ہوتا ہے کہ قارئین و سامعین کو مختلف ذرائع سے مستند شدہ خبریں باہم پہنچائے۔

اس حوالے سے موجودہ دور میں جہاں صحافتی اقدار میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں  صوبہ  سندھ اور سندھ کے دل کراچی میں مخصوص  گروہ کے ٹولے نے پرائیوٹ اسکولز کی طرح  شعبہ صحافت کو ایک تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جس کے باعث نا صرف اس شعبے سے تعلق رکھنے والے بیشتر اخبارات اشتہارات اور فنڈ کی کمی کے باعث نا صرف بند ہوچکے ہیں بلکہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے مخلص ہزاروں افراد شعبہ صحافت کو ترک کر کے رزق حلال اور ذریعہ معاش کی خاطر دیگر شعبوں سے وابستہ ہوتے چلے جا رہے ہیں وہیں آزادی صحافت کا جس برق رفتاری سے گلہ گھونٹا جا رہا ہے اس کے واضح عوامل یہ ہیں کہ شعبہ صحافت سے وابستہ مخلص افراد پر نا صرف حکومتی اداروں کی جانب سے ہراساں کرنے کے مواقع تلاش کئے جاتے ہیں بلکہ با اثر سیاسی اور سماج دشمن عناصر کی جانب سے آواز حق دبانے کے لئے مختلف ذرائع سے صحافیوں پر مقدمات قائم کئے جاتے ہیں تاکہ آئندہ کسی کے کالے کرتوت ظاہر کرنے کی جرآت نا کی جا سکے۔

(جاری ہے)

گذشتہ چند سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے لئے زندگی تنگ کی جا رہی ہے جس کی پاداش میں صحافیوں کو ڈرانا دھمکانا، اغواء کرنا تشدد کرنا اور دیگر ذرائع سے اپنے اثر رسوخ استعمال کر کے خبروں کی اشاعت رکوانا ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے  شعبہ صحافت سے وابستہ افراد پر نا صرف بھتہ خوری جسے سنگین مقدمات بھی درج ہوئے بلکہ  کے اوپر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ وہ منظم جرائم سے منسلک افراد یا گروہ کی سہولت کاری کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔

بلا شبہ جب سے واٹس ایپ گروپ اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع کو فروغ ملا ہے جہاں ہر فرد کو آزادی رائے کا حق ہے وہیں اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے شدید مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے بناء تصدیق اور معلومات کے خبر اپنی مرضی کے مطابق مرچ مصالحہ لگا کردیگر واٹس ایپ گروپس میں چپکا دی جاتیں ہیں  جس سے نا صرف افواہوں کا بازار گرم رہتا ہے وہیں اس شعبہ سے وابستہ افراد کے لئے شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔

تاہم اس بات سے قطع نظر کے خبر کی صداقت اور خبروں کے ذرائع کے پہلو پر غور کیا جائے جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے جس سے اس شعبہ سے وابستہ مخلص افراد کی وقعت بھی ختم ہو کر رہ جاتی ہے جس کے باعث مستند اور جامع خبرکے صحافی کو بھی مختلف القابات سے نوازا جاتا ہے جس کے مناظر اکثر و بیشتر مختلف  واٹس ایپ نیوز گروپس میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہیں سرکاری ، سیاسی اور با اثر افراد شعبہ صحافت سے وابستہ  منجھے ہوئے  صحافی یا کسی اینکر کو اپنے گھر کی لونڈی بنا کر رکھنے میں فخر محسوس کرتا ہیں تاکہ ان کے کالے کرتوت نا صرف چھپا کر رکھیں وہیں ان کے خلاف چلنے والی خبروں کا دفاع بھی کر سکے جس کا بھاری نذرانہ بھی ماہانہ باقاعدگی سے ادا کیا جاتا ہے۔

تاہم ابھی بھی اس شعبہ سے وابستہ ہزاروں افراد ایسے ہیں جو اپنے ضمیر کا سودا کئے بنا اپنے فرائض منصبی سے پیچھے نہیں ہٹتے تو مختلف ذرائع سے نا صرف دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ قتل کر کے ابدی نیند سلانے سے بھی دریغ نہیں کرتے صحافیوں پر تشدد اور قتل عام سی بات ہوگئی ہے  جبکہ موجودہ حالات میں  شعبہ صحافت سے وابستہ افراد موجودہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری  معاشی تنگدستی کے باعث نا صرف کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں بلکہ حالات کا مقابلہ کرتے کرتے اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ ماسوائے خودکشی کے کوئی چارا نظر نہیں آتا۔

حال ہی میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ دو سالوں میں رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال آزادی صحافت کی صورتِحال گزشتہ 2 برسوں کے مقابلے میں مزید ابتر رہی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں میڈیا کی آزادی، آزادی اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کے حقوق کو کسی نہ کسی ہتھکنڈے کے ذریعے دبانے کی کوششوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال 5 صحافیوں کو قتل کیا گیا، دو صحافیوں نے بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کی کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کی ہی رپورٹ کے  مطابق 2021 میں میڈیا براہ راست اور بالواسطہ دباؤ اور مختلف حکومتی اور غیر حکومتی و ریاستی اقدامات اور عدم برداشت پر مبنی میڈیا مخالف کارروائیوں کے نرغے میں رہا۔ بلاشبہ یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے اور خاص منظر عام پر آئے مگر صوبہ سندھ خاص کر کراچی میں ان گنت ایسے واقعات ہیں جہاں بلا دریغ صحافیوں پر ذاتی رنجش و عناد یا اپنی سرکاری وردی یا عہدے کے زعم میں جھوٹے مقدمات درج کر دیئے جاتے ہیں جس کا خمیازہ نا صرف متاثرہ فرد کے اہلخانہ کو بھگتنا پڑتا ہے بلکہ اس شعبہ سے منسلک افراد بھی بے بس و مجبور نظر آتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :