شیخ چلی کے شگوفے اور موجودہ نیا لطیفہ

جمعرات 3 فروری 2022

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

اخباری بیانات کے مطابق ایک  وطن عزیز میں شیخ چلی نما دعوے اور بھڑکیاں عروج پر رہتی ہیں وہیں ایک خبر نظروں سے گزری کہ  نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ڈیجیٹل پاکستان وژن کے حکومتی پروگرام کے تحت کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈز کو ڈیجیٹل والٹس بنانے کے لئے کام شروع کر دیا ہے۔ جس کے مطابق  آپ کا شناختی کارڈ جلد ڈیجیٹل والٹ میں تبدیل ہو جائے گا اور یہ سہولت ممکنہ طور پر رواں برس  کے آخر مہینوں یا دنوں میں اس ایپ کی اپ ڈیٹ شہریوں کے لیے دستیاب ہوگی۔

یہ بیان  اگر کسی پارٹی کے سیاسی نمائندگان یا حکومتی عہدے داروں کی جانب کی جاری کی گئی ہوتی تو معمول کا شگوفہ سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا تھا  مگر ہر بالغ العقل اور ذی شعور اس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ وطن عزیز میں جہاں عوام کو بجلی ، پانی ، گیس، سڑکیں ہسپتال، امن و امان کا قیام جو حکومت وقت کی ذمہ داری ہے یا غریب کو انصاف ملے نا ملے جہاں کسی کے ذاتی مکان یا پراپرٹی پر قبضہ ہو جائے جسے ثابت کرنے کے لئے کئی عشروں صبر آزما صفر اور بوریاں بھر کے پیسوں کی ضرورت ہے تاکہ اپنی ہی جائیداد کے مالکانہ حقوق ثابت کئے جا سکیں۔

(جاری ہے)

جہاں 2017 میں ہونے والی مردم شماری کا متفقہ طور پر یہ فیصلہ نا کیا جا سکے کہ وطن عزیز میں چاروں صوبوں بشمول فاٹا میں اصل آبادی کیا ہے جہاں سندھ شہری و دیہی آبادی کو ملا کر بھی کراچی کی آبادی سے آدھی دیکھائی گئی ہے جہاں ملک کے شہری علاقوں سے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں اکثریت نا خواندہ ہیں جہاں بچیوں اور نو عمر لڑکوں کو آج بھِی درخت و دیگر رسوم و رواج و دیگر  چیزوں سے منسوب کر کے شادی کروا دی جاتی ہے تاکہ جائیداد کا بٹوارا نا ہوسکے یا پھر ان کی قابض شدہ جائیداد کا نیا وارث نا آسکتے۔

ایسے میں  نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کا جاری کردہ بیان اکیسویں صدی کے کسی نئے شیخ چلی سے بیان سے زیادہ نہیں لگتا کہ جب ملک کے بیشتر علاقے نا صرف بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں بلکہ شناختی کارڈ جیسے حصّول جہاں صرف غیرقانونی تارکین وطن کا با آسانی بن سکتا ہے لاکھوں افغآنی، برمی اور بنگالی نادرا کے راشی افسران سے ساز باز کر کے نا صرف با آسانی قومی شناختی کارڈ جسے حساس سند کا حصول کر سکتے ہیں وہیں مقامی اور متعلقہ صوبہ اور شہر کا ڈومیسائل یافتہ شہری کس قدر تکلیف اور ازیت کا شکار ہوتا ہے وہ ہر نادرا سینٹر میں لگی لمبی لائنوں کو دیکھ کر باآسانی اندزہ لگایا جا سکتا ہے ماہ فروری کے آغاز کے ساتھ ہی شیخ چلی طرز کی بیان بازی یہ نا بتا سکی کے وطن عزیز میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہری و دیہی علاقوں میں بالغ مرد و خواتین کی تعداد کی تعداد کتنی ہے اور کتنے شہریوں کا شناختی کارڈ بننا باقی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :