ہیومین ٹریفکینگ میں نوکری اور سیکچوئیل مقاصد کا بڑھتا ہوا کاروبار

ہفتہ 22 جنوری 2022

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

بلاشبہ غیرقانونی کام ہی پیسے کمانے کا شارٹ ٹرم دھندہ ہے جس میں زیادہ محنت کئے بنا ہی اچھی خاصی رقم جمع ہوسکتی ہے اور اس کاروبار سے منسلک لوگوں کا اپنے نیٹ ورک اور ہم خیال لوگوں سے روابط کا ایک مخصوص ذریعہ ہوتا ہے۔ ہیومین ٹریفکنگ  میں تین اہم برانچز ہیں جن میں پہلا نمبر چھوٹے بچوں کو اغواء کر کے ان پر تشدد کرنا دُور دراز علاقے میں کے جا کر ذہنی و جسمانی ازیت پہنچانا اور ہاتھ پیر یا کسی  مخصوص اعضاء سے محروم کر کے واپس کسی بڑے  شہر کے ایجنٹ کو فروخت کر دینا ہے۔

جو بچوں سے بھیک منگوانے کے ساتھ ساتھ منشیات کی نقل و حرکت یا  ترسیل کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ ہائی لیول کے بچوں کی اسمگلنگ  میں 50 سے زائد فیصد بچوں کو خرید و فروخت آن لائن کی جاتی ہے ان بچوں کو شہر کے مخلف علاقوں سے اٹھا کر نشہ آور ادویات پلا کر مختلف ذرائع نقل و حمل کے ذریعے ملک کے دوسرے دور دراز علاقوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)


اکثر اوقات نومولود بچوں کو اسپتال اور گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کے ذریعے اغواء کر کے کسی دولت مند خاندان کو فروخت کر دیا جاتا ہے جہاں وہ اپنی باقی زندگی کی پرورش پاتے ہیں۔ نو عمر لڑکیوں کو بھی اغواء یا متوسط گھرانوں سے خرید کر ان ہی دولت مند افراد کو ایک سال یا کئی سال کے کنٹریکٹ پر فروخت کر دیتے ہیں جہاں ان کے بروکر عرف عام میں دلال کہلاتے ہیں ایک خطیر رقوم وصول کرکے بچوں کے والدین کو تھوڑی سی رقم ادا کرتے ہیں کہ تمہاری بچی محفوظ ہاتھوں میں ہے اورمیڈم صاحبہ بہت خیال رکھتی ہیں۔

ان بچیوں کا جس طرح خیال رکھا جاتا ہے وہ آئے دن خبروں کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ جبکہ نا بالغ بچوں کو چھوٹے گاوّں دھاتوں سے خرید کر محنت مزدوری کے لئے کسی کارخانے میں فروخت کر دیا جاتا ہے جہاں ان بچوں سے محنت مشقت کرائی جاتی ہے
اِسی طرح ملک کے طول و عرض سے نا خواندہ شہریوں کو پردیس میں اچھی نوکری اور راتوں رات کروڑ پتی بننے کے خواب دیکھا کر خلیجی یا یورپ میں بھیجا جاتا ہے اس ضمن میں ان افراد سے لاکھوں روپے بٹور لئے جاتے ہیں جنہیں ملک کے اہم شہروں خاص کر کراچی لا کر گوادر بلوچستان سے کئِی ہفتوں کی پیدل سفر ۔

ڈبل ڈور کیبن اور دیگر ذرائع سے ایران اور پھر سمندری  یا بریّ باڈرز کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کی جاتی ہے  اس انسانی اسگملنگ کے دوران کئی نوجوان موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں یا پھر بے یارومددگار صحرا میں بھٹکنا یا متعلقہ ملک کی جیل میں زندگی گزارنا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ وطن عزیز میں 2019 سے مہنگائی کا سونامی جس قدر بڑھتے جا رہا ہے اس سے نا صرف امپورٹ ایکسپورٹ کو دھچکہ لگا بلکہ ملکی بیشتر  صنعتیں بھی شدید متاثر ہوئی بلاشبہ مہنگائی اور بیروزگاری بڑھنے سے بڑے شہروں میں جرائم کی وارداتوں میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا جس کی تمام تر حکمت عملی اختیار کرنے کے باوجود روک تھام ممکن نا ہوسکی سال نو کے آغاز سے ہی دہشت گردی اور اسٹریٹ کرائم کا لامتناہی سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

بیروزگاری اور غربت کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث گھروں میں رہنے والی خواتین بھی حصول ملازمت کے لئے دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ناخواندہ  یا کم تعلیم یافتہ خواتین زیادہ ترفیکٹریوں میں ملازمت کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں جنہیں وہاں کے سپروائزر یا اسٹاف ورکرز سے چار و نا چار  سیکچوئیل ہراسمنٹ کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے، خواتین میں  سب سے زیادہ سیکچوئیل ہراسمنٹ کے واقعات گارمنٹ فیکٹریز اور اسپتالوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں مگر عزت اور ذریعہ معاش کی خاطر ہزاروں خواتین بہت کچھ سہنے اور کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔

چونکہ ہیومین ٹریفکینگ میں سیکچوئیل مقاصد کے لئے استعمال کی جانے والی نوجوان لڑکیاں سب سے منافع بخش کاروبار ہے
ان لڑکیوں سے دوستی اور محبت کے نام پر روابط بڑھا کر پہلے خود جنسی تعلقات رکھے جاتے ہیں پھر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر معاشرے کے لئے ایک بدنماء داغ بنا دیا جاتا ہے بہت سی لڑکیاں خاندان کی عزت برقرار رکھنے کی خاطر یہ ظلم سہتی رہتی ہیں اور ان عناصر کا حوس کا نشانہ بننے پر مجبور  رہتی  ہیں جبکہ دوسری جانب غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والی کم سن لڑکیوں کو دولت اور اچھی زندگی کے سہنرے خواب دیکھا کر جعلی کاغذات کے ذریعے دوسرے ممالک میں جسم فروشی کے لئے بھیجا جاتا ہے اس گھناوّنے دھندے میں اشرافیہ بھِی ملوث ہوتی ہیں جنہیں عرف عام میں سیاستدان اور نامور سماجی تنظیمیں کہا جاتا ہے بلاشبہ انسانی اسمگلنگ کا سب سے زیادہ نشانہ ترقی پذیر ممالک اور ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ افراد یا خاندان ہی بنتے ہیں۔

نوکری کا جھانسہ دے کر  پردیس بھیجنے انسانی اعضاء کو فروخت کرنے کے گھناوّنے کاروبار کو روکا تو نہیں جاسکتا مگر مربوط حکمت عملی کے ذریعے اس پر کمی ضرور لائی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب گمشدہ بچوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ہر شہری اپنا فرض اس طرح نبھا سکتا ہے کہ اگر کسی بچے کو کسی جگہ بھیک مانگتا دیکھیں تو اس کی مدد کرنے کے بجائے اس کی تصویر ، شہر اور علاقہ کے نام کے ساتھ سوشل میڈیا پرتشہر کر دیں کہ فلاں بچہ فلاں شہر کے علاقے میں بھیک مانگ رہا ہے تو اس طرح گمشدہ بچوں کے اہلخانہ اپنے لعل با آسانی تلاش کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :