
مقبوضہ کشمیر سے منسلک ماضی کی تدفین
ہفتہ 10 اپریل 2021

غزالی فاروق
آخر ماضی کی وہ کونسی چیز ہے جس کو دفن کرنے کا تذکرہ ہو رہا ہے؟
آخر وہ کون ہے جس کے لیے کشمیرکا تنازعہ ایک مسئلہ بنا ہوا ہے اور اُس کے لئے اِس سے نجات حاصل کرنا انتہائی ضروری ہوچکا ہے؟
کیا ہندو ریاست کو علاقائی طاقت کے طور پر اُبھرنے کا راستہ فراہم کرنے سے خطے میں امن اور خوشحالی آجائے گی ؟
جہاں تک ماضی کو دفن کرنے کی بات ہے، تو یہ وہ تابناک ماضی ہے جو کشمیر کے مسلمانوں کی اُس مزاحمت کا گواہ ہے ،جوانہوں نے کشمیر پربھارتی قبضے کے خلاف اور پاکستان سے الحاق کے لیے 1947 میں کی تھی۔
(جاری ہے)
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کشمیر کا تنازعہ دراصل کس کے لئے سب سے بڑا مسٔلہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان یقینی اورپائیدار امن کا نہ ہونا اس وقت امریکا اور اس کے علاقائی اتحادی ہندو ریاست بھارت کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان بھارت کے رستے سے ہٹ جائے اوراس کے علاقائی طاقت بن کر اُبھرنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے تا کہ بھارت چین کے خلاف کردار ادا کرسکے۔ لہٰذا،امریکا مقبوضہ کشمیر کو دفن کرنے کا مطالبہ کررہا ہے تا کہ ہندوریاست بیک وقت دو محاذوں پر جنگ کا سامنا کرنے کےخوفناک امکان سے بے فکر ہوجائے۔ یقیناً، لائن آف کنٹرول پر جارحانہ کاروائیو ں کو روکنے کا معاہدہ ایک ایسے وقت طے پا یا ہے جس نے ہندو ریاست کو سکھ کا سانس فراہم کیا ہے، کیونکہ چین کی سرحد پرمحاذ گرم ہے اور بھارت کوخدشہ لاحق تھا کہ کہیں پاکستان مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے کوئی اقدام نہ اٹھا لے۔ لیکن اس کے برخلاف حکومت کی جانب سے سیز فائر کی یقین دہانی کے نتیجے میں کئی دہائیوں بعد یہ پہلی بار ہوا کہ بھارت نے اپنی پہلی اسٹرائیک کور پاکستان کی سرحد سے ہٹا کر چین کی سرحد پر منتقل کردی، جبکہ یہ معاہدہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں بسنے والےمسلمانوں پر ہونے والے مظالم میں کسی کمی کا باعث نہیں بنا۔
جنرل مشرف کی طرح موجودہ حکومت بھی بھارت کے ساتھ پائیدار پرامن تعلقات کے قیام کا پختہ عزم رکھتی ہے تا کہ اسے خطے کی علاقائی طاقت بننے میں سہولت فراہم کی جائے جبکہ یہ ہندوریاست کسی طور پر اس کی حق دار نہیں ہے۔تعصب میں ڈوبی ہندو حکمران اشرافیہ نچلی ذات کے ہندوؤں اوراپنے اقتدار تلے رہنے والےاور اقتدار سے باہر رہنےوالے مسلمانوں کو انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی ۔ یقیناً یہ ہندو اشرافیہ کا تعصب ہی تھا جس نے ہمارے آباؤاجداد کو اس بات پر مجبورکیا تھا کہ وہ اسلام کے نام پر الگ ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔پھر مزید یہ کہ ہندو مذہب کوئی مکمل ضابطۂ حیات نہیں ہے ، اس لیے ہندو مت کے پیروکاروں کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ وہ اُسی سرمایہ دارنہ استعماری آرڈر کی پیروی کریں جودولت کو مقامی و بیرونی حکمران اشرافیہ اور استعماری طاقتوں کے ہاتھوں میں جمع کر دیتا ہےجبکہ پوری دنیا میں عوام کی بڑی تعداد معاشی بدحالی اور شدید غربت کا شکار ہوجاتی ہے۔ ہندو ریاست کو مراعات دینے سے دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہنے لگیں گی بلکہ ہندو ریاست کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ اپنی تباہ کن کارروائیوں کے ذریعے پورے خطے کو نااُمیدی کےاندھیروں میں دھکیل دے ۔
لیکن ان تمام وجوہات سے بھی بڑھ کر یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں ان لوگوں سے قربت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے جو ہمارے دین کی وجہ سے ہم سے لڑتے ہیں اور ہم سے لڑنے کے لیے دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،﴿إِنَّمَا يَنْهَاكُمْ اللَّهُ عَنْ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ﴾ "اللہ انہی لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے سےتم کو منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کی وجہ سے لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی۔ تو جو ایسے لوگوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں"(سورۃمحمد،60:9)۔
تو ہم کیوں باطل اور گمراہی پر قائم ہندوؤں کی خاطر اپنے دین کی خلاف ورزی کریں اوراپنی حرمتوں کا سودا کریں؟ یہ عوام ایک معزز امت کا حصہ ہیں جو ایک زبردست میراث کی حامل ہے جو کہ ایک اسلامی میراث ہے ۔ وہ میراث جس کی ابتداء رسول اللہ ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کے وقت سے ہوئی اور برصغیر پاک وہند پر اسلام کا مکمل غلبہ اس کا وقتِ عروج تھا۔ یہ برصغیر پاک و ہندپراسلام کی بنیاد پر حکمرانی کا دور تھا جب اس کی معیشت کا حجم اس وقت کے یورپ کی کُل معیشت کے برابر تھا، اور1700 عیسوی میں اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں اس خطے کی معیشت دنیا کی کل معیشت کا 27 فیصدہو گئی۔ صدیوں تک اسلام کی حکمرانی نے اس خطے کے لوگوں کے امن و تحفظ اور خوشحالی کو رنگ،نسل اور مذہب کے امتیاز کے بغیر یقینی بنایا جس کی وجہ سے ہندوؤں سمیت تمام باشندے ریاست سے وفادار رہے۔ یقیناً اسلامی دور ایک سنہری دور تھا جس نے اپنی روشنی سے باقی دنیا کو بھی منور کیاجس کے نتیجے میں لالچی استعماری طاقتیں اِس کی جانب متوجہ ہوئیں، انہوں نے یہاں تفرقہ وتقسیم کے بیج بوئے اور یہاں کے لوگوں پراپنی حکمرانی کو یقینی بنایا۔
لہٰذا ایک معزز امت ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں ماضی کو دفن یا فراموش نہیں کرنا بلکہ کشمیر کے زخم کو دلوں میں زندہ رکھنا ہے اور امریکا کے ناپاک منصوبوں سے ناطہ توڑ کر بھارت کے عزائم کو خاک میں ملانے کی منصوبہ بندی کرنی ہے۔ کیا پاکستان کے بوسیدہ نظام میں یہ سکت ہے کہ وہ وقت کے اس اہم تقاضے کو پورا کر سکے؟ اگر نہیں تو پھر کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ایک نئی بنیاد پر ریاست کی تعمیر نو کی جائے؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
غزالی فاروق کے کالمز
-
جمہوری نظام حکومت میں اقلیتوں کی محرومی
منگل 4 جنوری 2022
-
مہنگائی کی اصل وجہ اور اس کا حل
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
اسلامی حکومت کیسی ہوتی ہے؟
منگل 26 اکتوبر 2021
-
پاکستان ، افغانستان اور وسطی ایشیاء پر مشتمل ایک اسلامی ریاست
جمعرات 26 اگست 2021
-
کیا تیل اور گیس کی قیمتوں پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں؟
بدھ 18 اگست 2021
-
ریپ کی وجہ- طاقت کا اظہاریا بھٹکی ہوئی جنسیت؟
ہفتہ 7 اگست 2021
-
پاکستان کی امریکہ کے لیے سہولت کاری
جمعہ 23 جولائی 2021
-
ایٹمی ہتھیاروں سے دستبرداری؟
جمعرات 8 جولائی 2021
غزالی فاروق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.