1 جولائی کو اسرائیل کی جانب سے نئی پیش قدمی کا اعلان

پیر 22 جون 2020

Hafiz Mati Ur Rahman Jamali

حافظ مطیع الرحمان جمالی

28 مارچ 2020 کو برطانوی میگزین دی اکانومیسٹ میں ایک آرٹیکل شائع ہوتا جس کا عنوان
Evry thing`s under control
کے نام سے تھا۔۔۔
اور ایک مخصوص ذھنیت کی عکاسی کرتی میگزین کی فرنٹ تصویر یہ بتلا رہی تھی، کہ کچھ شیطانی ذھن اپنی چالوں اور خوابوں کو پورا کرنے کی کوششوں میں گامزن ہیں۔۔۔
اس میگزین کو لے کر "ورلڈ آرڈر" کے نام سے دنیا میں کافی بحث چلتی رہی۔

۔۔ کسی نے کوئی تجزیہ پیش کیا کسی نے کچھ پیشنگوئی کی۔۔۔
ورلڈ آرڈر یا گریٹر اسرائیل ابھی یہ بحث جاری ہی تھی کے کچھ دنوں سے اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے غرب اردن کو اپنی حکومت کا حصہ بنانے کا اعلان سامنے آگیا، {غرب اردن فلسطین اور اردن کا سرحدی علاقہ} اور ساتھ ہی اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے مختلف حصوں میں باقاعدہ اسکے اشتہارات دیواروں پہ نصب کیے گے۔

(جاری ہے)

۔۔
یہ اعلان اور پلان کوئی نیا نہیں تھا اسی کے تحت نیتن یاھو اپنی انتخابی مہم چلائی اور ایک مشترکہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوا جسکا سرفہرست ایجنڈا ایک سال کے اندر اس علاقے {غرب اردن} میں موجود یہودی آبادیوں کو اسرائیل کا باقاعدہ قانونی حصہ بنانا تھا۔
یہ علاقہ 1967 کی جنگ سے ہی ایک مقبوضہ حیثیت رکھتا ہے اقوام متحد بھی اسے مقبوضہ علاقے کہ طور پہ دیکھتا اور اسرائیل کے یہاں قبضے کو غیرقانونی قرار دیتا۔

۔۔ مگر اقوام متحد اب سوائے مسلم دنیا کو ایک لالی پاپ دینے کے کچھ کر بھی نہیں سکتا اور نا ہی آج تک کچھ کیا۔۔۔
ایک وقت تھا جب یہی یہودی وفد اپنی درخواست لے کر سلطان عبدالحمید کے دربار میں پیش ہوا کرتے اور ان سے فلسطین میں آباد کاری یا رہائش اختیار کرنے کی اجازت مانگا کرتے۔۔۔ کیوں کہ سلطنت عثمانیہ کے قانون کے مطابق یہودیوں کو یہاں صرف زیارات کی اجازت تھی جبکہ یہاں رہائش رکھنا جگہ کی خریداری اور آبادکاری پہ پابندی تھی، کیونکہ سلطان عبدالحمید بھی انکے منصوبے سے واقف ہوچکے تھے لہٰذا انہوں نے بھی بارہا درخواست لے کر آنے والے یہودی وفد کو اجازت نا دی اور آئیندہ دربار میں پیش نا کرنے کا حکم بھی دے دیا۔

۔۔ یہی وجہ بنی سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کی کیوں کہ یہودیوں کے نزدیک سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کی ایک متحدہ ریاست اور آپس کا اتحاد تھا۔۔۔ سب سے پہلے انہوں نے اس خلافت کا خاتمہ کیا ہمیں اپنے اپنے علاقوں میں تقسیم کر کے ساتھ ہی امریکہ، برطانیہ کی مدد سے ییودیوں نے وہاں آباد کاری شروع کی پھر بعد اذاں اسرائیل  ریاست کا اعلان کردیا گیا، اور اس دن سے لے کر آج تک وہ اس علاقے اور گریٹر اسرائیل کے منصوبے پہ عمل پیرا ہیں۔

۔۔ گزشتہ سال بھی اسرائیل نے شامی علاقے گولان کی پہاڑی پہ اپنا قبضہ جمایا چند مسلم دنیا اور اقوام متحدہ کے مذمتی بیان کے علاوہ کچھ نا ہوسکا۔۔۔ بلاآخر امریکہ نے انکے اس قبضے کو تسلیم کیا اور اسے اسرائیل کی دفاعی جغرافیائی صورتحال کیلئے اھم قراد دیا اور دنیا سمیت مسلم ممالک بس مذمتی بیان دیتے رہے۔۔۔
حالیہ اسرائیلی منصوبے غرب اردن کو اپنی ریاست کا حصہ بنانے اور اس اقدامی پیش رفت پہ بھی مسلم دنیا ابھی تک سوئی ہوئی نظر آرہی ہے
سوائے چند ممالک کے کسی کی طرف سے کوئی مذحمت ہوتی نظر نہیں آرہی۔

۔۔
کچھ دن قبل ترک وزیر خارجہ نے اس صورتحال پہ بیان دیتے ہوئے کہا
"اگر اسرائیل ریڈ لائن کراس کرے تو اسلامی ممالک کو ضرور اس کا جواب دینا چاہیے اور دکھانا چاہیے کہ اس کے اثرات تباہ کن ہو سکتے ہیں۔"
مگر اسلامی دنیا تو سوئی ہے، جو ایک ٹیبل پہ اکٹھا کھانا نہیں کھاسکتے کیا وہ ایک لشکر بن کر دشمن کے ساتھ جنگ کریں گے۔۔۔؟؟؟ ناممکن
اسی طرح انڈونیشیا کے وزیرخارجہ ریتنو مرسودی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ
"‏اسرائیل کے غرب اردن پر قبضے کے منصوبے کے خلاف او آئی سی اور مسلم دنیا متحد ہو۔

اسرائیلی منصوبہ امن اور خطے کے استحکام کو تباہ کر دے گا۔"
او آئی سی کی صورتحال سے آپ سب تو اچھی طرح واقف ہی ہیں اس پہ زیادہ تبصرہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں وہ سوائے ایک سوئے ہوئے اونٹ کے کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور نیند بھی شائد اصحاب کھف جتنی سوئے گا۔۔۔
اسی طرح کچھ دن پہلے ترک وزیرخارجہ میولوت چاوش اولو کی ایرانی وزیر جواد ظریف سے ایک ملاقات ہوئی جس کے بعد انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا
ترکی اور ایران او آئی سی کے چارٹر تلے اسرائیل کی غرب اردن پر قبضے کی مزاحمت کریں گے،
اور جلد او آئی سی اجلاس بھی بلایا جائے گا۔

۔۔
یاد رکھیں۔۔۔۔!!! ہم بس مذمتی بیانات تک محدود رہے گے اور یہودی اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے تک بھرتے چلے جائیں گیں۔۔
اور یہ بھی یاد رکھیں۔۔۔!!!
گریٹر اسرائیل کا مطلب اور یہودیوں کی پیش قدم گولان پہاڑی یا غرب اردن تک ختم نہیں ہوگی۔۔۔
اگر مسلمان یہونہی خواب غفلت خرگوش کی نیند سوتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہودی اپنا گریٹر اسرائیل کا منصوبہ مکمل کریں گے، اور انکے جاری نقشے کے مطابق گریٹر اسرائیل میں فلسطین کے بعد اردن، لبنان، ترکی کا کچھ حصہ، شام، عراق، کویت کا کچھ علاقہ، سعودیہ عرب اور مصر تک اپنی ریاست قائم کرنا شامل ہے
کیا یہ منصوبہ یونہی پایۂ تکمیل ہوجائے گا۔

۔۔؟؟؟
نہیں حضور ایک ناقابل یقین خون ریزی ہوگی جسے آپ تیسری عالمی جنگ بھی کہہ سکتے ہیں
اس خون ریزی کو ایک حدیث مبارکہ کے مفہوم کے مطابق کچھ یوں نقش بند کیا گیا ہے کہ ایک پرندہ زمین پہ بیٹھنے کیلئے کوئی جگہ تلاش کرے گا مگر اسے ہر طرف بکھری لاشیں ہی نظر آئے گی وہ اڑتا چلا جائے گا یہاں تک کے وہ تھک ہار کر ایک لاش پہ بے بس گِھر جائے گا۔

۔۔
یہ سب ہمارے سامنے ہے اور اسکا دارومدار ہمارے اعمال، اتحاد کے ساتھ ہے۔۔۔
آخر کیا وجہ ہے جب ہم 313 تھے تو ہزاروں کے لشکر پہ بھی فتح یاب ہوئے اب ڈیڑھ ارب کی تعداد میں اور شکست پہ شکست خور ہیں۔۔۔
وہ بھی ایک ایسے طبقہ سے جس کی تعداد ہم سے بہت ہی کم ہے، پوری دنیا میں یہودیوں کی تعداد 1 کروڑ چالیس لاکھ ہے جس میں سے صرف 30 سے 35 لاکھ یہودی اسرائیل میں آباد ہیں 50 لاکھ کے قریب امریکہ میں اور باقی یورپی ممالک سمیت پوری دنیا میں {کل تعداد 1 کروڑ چالیس لاکھ}
جبکہ مسلمان 1 ارب پچاس کروڑ سے زائد، اور صرف عربوں کی تعداد 30 کروڑ سے زائد ہے، دین سے دوری،  بےعملی اور آپس کے اختلافات نے ہماری یہ حالت کر دی ہے کہ سوا کروڑ یہودی ڈیڑھ ارب مسلمانوں پہ مسلط ہیں اور ہم سوائے دعاؤں اور غیبی مدد کے انتطار کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہے۔

۔۔
اس پہ ترک دانشمند نجم الدین اربکان نے کہا تھا۔۔۔
"ڈیڑھ ارب مسلمان 80 لاکھ یہودیوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے خدائی مدد اور ابابیلوں کے انتظار میں ہیں
مجھے یقین ہے اگر یہ ابابیلیں آبھی گئیں تو وہ کنکر یہودیوں پر نہیں بے عمل مسلمانوں پر پھینکیں گی"
ہمیں اپنی پالیسیوں پہ نظر ثانی کرنی ہوگی، اپنی ذاتی اختلافات بھلا کر عالمی سطح پہ ایک مظبوط اتحاد بنانا ہوگا۔

۔۔ اتحاد میں ہی برکت ہے، اتحاد میں ہی قوت ہے
ورنہ اوپر حدیث کا مفہوم آپ نے پڑھ لیا۔۔۔ اس سے بری صورتحال بھلا اور کیا ہوگی
اللہ پاک مسلم دنیا کو اس یہودی سازش سمجھنے اور اپنے اعمال درست کرنے، دین کے راستے پہ چلنے آپس میں اختلافات ختم کرتے ہوئے ایک امہ اور یک جاں ہونے کی توفیق عطا کرے۔آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :