القدس کے محافظ (پہلی قسط)

منگل 19 مئی 2020

Hafiz Mati Ur Rahman Jamali

حافظ مطیع الرحمان جمالی

شروع کرنے سے پہلے تھوڑا اپنے تصورات کو ہجرت کرواتے ہوئے مصر، عراق و شام اور موجودہ ترکی کی سرزمینوں پہ لے جائیں۔یہ گیارہویں صدی عیسوی کا دور ہے۔۔۔ جب سلطان نور الدین زنگی امیر دمشق و حلب (شام و عراق)ہوا کرتے تھا۔۔۔یہ ایک مسلم حکمراں تھے، جن کا دارالخلافہ پہلے حلب میں تھا بعد میں دمشق آزاد کروا کر اسے دارالخلافہ بنا دیا گیا۔۔۔سلطان نورالدین زنگی کی فتوحات میں عرب علاقوں کے ساتھ ساتھ انطاکیہ کا علاقہ بھی تھا۔

۔۔ 
انطاکیہ ترکی کے جنوب مشرقی میں واقع صوبہ حطائے کا مرکزی شہر ہے جو بحیرہ روم سے 20 میل دور اور دریائے آسی کے کنارے آباد ہے۔۔۔سلطان نے اپنی زندگی میں صلیبیوں سے بیشمار چھوٹی بڑی جنگیں لڑیں۔۔۔الغرض یہ کہ سلطان اپنی بہادری اور فتوحات کی بنیاد پہ ہی دوسری صلیبی جنگ کے فاتح قرار پائے۔

(جاری ہے)

۔۔اور انکے دیکھے ہوئے خواب اور جھاد میں فتوحات کی بدولت ہی بیت المقدس اور مسجد اقصٰی کی آزادی کیلئے راہ ہموار ہوئی۔

۔۔انہی کی فوج میں ایک نوجوان بطور سپاہی بھرتی ہوا، جس فوجی دستے کا سپہ سالار اسی کا چچا شیر کوہ تھا۔اس دستہ نے کچھ سالوں بعد 564ھ میں مصر فتح کیا اور نورالدین زنگی نے صلاح الدین ایوبی کی جوانمردی، بے پناہ صلاحیتوں کی دولت انہیں مصر کا حاکم مکرر کردیا۔۔۔ انہوں نے مصر آزاد کروانے کے بعد اپنی جدوجہد جاری رکھی یہاں تک کہ چار سال بعد 569ھ میں یمن تک کا علاقہ فتح کر لیا۔

۔۔اور اسی فتوحات کی بدولت سلطان نورالدین زنگی کے بعد صلاح الدین ایوبی بطور سلطان اس عہدہ پہ فائز ہوگے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کا دل جو جذبہ جہاد سے سرشار تھا وہ اپنی فتوحات پہ سلطان نورالدین زنگی پہ بھی بازی لے گی اور بلاآخر سلطان نورالدین زنگی کا دیکھا خواب پورا کیا اور بیت المقدس صلیبیوں کے لشکر کو عبرتناک شکست دے کر آزاد کروا لیا۔

۔۔بیت المقدس کو 88 سال صلیبیوں کے قبضہ میں رہنے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے آزاد کروایا۔۔۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کی بیت المقدس کو فتح کے ساتھ ساتھ انکی ایوبی سلطنت مصر، شام، عراق، یمن، حجاز اور دیار باکر تک قائم تھی۔۔۔
اور کئی علاقوں پہ عیسائیوں کے ساتھ امن معاہدوں پہ مشترکہ حکومتیں بھی تھی۔۔۔۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1174ء سے 1193ء تک بطور سلطان ایک عظیم مسلم حکمراں کے مثالی زندگی گزاری۔

۔۔انکی وفات مارچ 1193ء میں 55 یا 56 سال کی عمر میں ہوئی۔ وفات کے وقت سلطان نے ریاست کو اپنے تینوں بیٹوں میں تقسیم کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک متحد ریاست تقسیم ہوکر رہ گئی۔۔۔اور بعض ازاں کچھ قابل جس میں سلطان کے بھائی اور ایک بیٹا اسے کچھ سال متحد رکھ سکے بلاآخر یہ 60 سال بعد ہی 648ھ میں ایوبی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا۔۔۔۔اس سارے نقشہ کے بعد اب زرا مدع پہ آتے ہیں۔

۔۔۔
سلطان صلاح الدین کی وفات 1193ء میں ہوئی۔۔۔اسی زمانے میں ایک قائی قبیلہ اپنے سردار سلیمان شاہ کی سرپرستی میں چنگیز خان کے ظلم و ستم سے بچتے بچتے در بدر ہجرت پہ مجبور تھا۔۔ یہ قبیلہ پہلے خراسان، ایران پہنچا پھر حلب کی سرحد پہ جا پڑاؤ ڈالا۔۔بظاہر یہ قبیلہ موسم سرما کی مشکلات اور چنگیز خان کے حملوں سے بھاگتا یہاں پہنچا مگر قدرت انہیں ایک عظیم مقصد اور صلاح الدین کے چھوڑے ہوئے عظیم مقصد کیلئے یہاں لارہی تھی۔

۔۔سلیمان شاہ ایک بہادر ترک سردار تھے جو اپنی اسلامی و قبائلی روایات، جزبہ جھاد سے جانے جاتے تھے۔۔۔سلطان صلاح الدین ایوبی کی وفات کے تقریباً چار سے پانچ سال بعد 1198ء میں سلیمان شاہ کے ہاں ایک بہادر نوجوان کی پیدائش ہوئی جسے آج تاریخ ارطغرل غازی کے نام سے یاد کرتی ہے۔۔۔یہ وہی زمانہ تھا جب سلطان صلاح الدین ایوبی کی وفات کے بعد ایوبی سلطنت تقسیم کا شکار ہوئی۔

۔۔اور کچھ ہی عرصہ میں صلیبیوں نے ایوبیوں کے اندر گھس کر ایک خاص مقام بنا لیا اور اس سلطنت کی جڑوں میں بیٹھنے لگے اور اسے اپنے کنٹرول میں کرنے لگے۔۔۔سلیمان شاہ نے اپنے قبیلہ کے ہمراہ اس علاقہ میں 1221ء میں ہجرت کی۔۔۔۔ اور اسی ہجرت اور دربدر موسم سرما کی سختی، قحط، جاڑ سمیت تمام مشکلات نے انہیں مجبور کیا اور یہ حلب کی سرحد پہ پہنچ گے۔

اس وقت امیر حلب سلطان صلاح الدین ایوبی کے پوتے امیر العزیز تھے۔۔۔
{جو 1216ء سے 1236ء تک حلب کے امیر رہے}
سلیمان شاہ نے اپنے اسی بیٹے ارطغرل کو اپنا ایلچی بنا کر حلب بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ امیر حلب سے حلب کی سرزمین میں رہنے کیلئے کوئی جگہ حاصل کر سکے۔۔۔
بظاہر تو ارطغرل غازی امیر حلب سے اپنے قبیلے کیلئے ایک جگہ کی درخواست لے کر گے۔

۔۔
مگر وہاں جاکر قدرت نے ان سے وہی کام لیا جس کیلئے انہیں اس سرزمیں پہ ہجرت کروائی۔۔۔
ارطغرل غازی حلب پہنچے تو انہیں یقین ہوا کہ یہاں صلیبیوں نے کیسے اپنے پنجے گھاڑے ہوئے ہیں۔۔۔
صلیبی سلطان صلاح الدین سے دوسری صلیبی جنگ میں اپنی دردمندانہ اور تاریخی شکست ابھی بھولے نہیں تھے۔۔۔۔
اسی شکست کا بدلا لینے کیلئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ پہلے عالم اسلام میں مسلمانوں کو آپس میں ہی لڑوایا جائے تاکہ انکی طاقت اور ریاستیں کمزور ہوں تو پھر ان پہ حملہ کیا جائے۔

۔۔
اسی لئے وہ عالم اسلام کو آپس میں ہی دست و گریباں کرنے ایوبی سلطنت اور مسلم سلجوق سلطنت کو آپس میں لڑوانے کی سازشیں کروانے پہ لگے ہوئے۔۔۔
ارطغرل غازی ایک دور اندیشی رکھنے والی شخصیت تھی اور قدرت کی بیشمار صلاحیت رکھنے والے اس نوجوان نے انکے سارے تانے بانے توڑ دے اور امیر حلب کے سامنے ایک ایک کر کہ انکے سارے بچھائے جالوں سے پردہ اٹھاتے رہے۔

یہاں تک کہ عالم اسلام کو ایک بڑی جنگ سے نکال دیا۔۔۔اور اپنی صلاحیت ایوبی سلطنت و سلجوق سلطنت میں منوائی۔۔۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے تو القدس آزاد کروا لیا مگر ان کی وفات کے بعد ایوبی سلطنت اندرونی تقسیم کا شکار رہی۔۔۔وہ کیسے القدس کی دیر پا حفاظت کر پاتے۔۔۔!!! 
اگلی قسط میں ہم اسکا ذکر کرے گے کہ سلطان صلاح الدین کے بعد اس علاقہ میں قدرت نے کائی قبلے کو کیوں یہاں ہجرتے کروائی اور وہ کتنی صدیوں تک سلطان صلاح الدین ایوبی کی آزاد کردہ القدس کی حفاظت کرتے رہے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :