ہم اور ہمارا آن لائن تعلیمی سسٹم

بدھ 25 نومبر 2020

Hafiz Mohammad Zubair

حافظ محمد زبیر

تعلیمی ادارے بند ہونے پر طلباء کی خوشی دیکھ کر کچھ لوگوں کی سنجیدگی، قوم کی حالت زار پر افسوس اور بطور قوم علم کا فقدان کہنا۔۔۔ سبکچھ حیرت زدہ کر رہا ہے۔
تنقید کرنا واقعی بہت آسان ہے۔
اگر تعلیمی اداروں کی بندش کو ایک طرف رکھ کر طلباء کی خوشی کے پیچھے چھپے حقائق تلاش کرتے تو زیادہ بہتر تھا۔
چند وجوہات میں آپکے سامنے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں ، شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔


سال 2020 سے ابتک پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں کا سسٹم آنلائن ہے۔
اس آنلائن سسٹم میں 80سے90 فیصد ایسے تعلیمی ادارے ہیں جنہوں نے ابتک ہزاروں روپے FEESES لینے کے باوجود اپنا آنلائن سسٹم بہتر نہیں کیا جبکہ وہ کر سکتے تھے۔
ہم ایسے ملک کے شہری ہیں جہاں کے تعلیمی اداروں میں پریکٹیکل کروانے کے لیے تعلیمی اداروں میں پریکٹیکل ساز و سامان ہے ہی نہیں۔

(جاری ہے)


جو تھوڑی بہت پریکٹیکل گائیڈ لائن طلباء کو دی جا رہی تھی بد قسمتی سے کرونا کی وجہ سے وہ بھی ختم ہو گئی۔
اب جب سے آنلائن سسٹم ہے اساتذہ اپنی طرف سے بات سمجھانے کی کوشش میں کسی حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان PHYSICAL APPEARANCE میں بات زیادہ اچھے سے اور کم وقت میں سمجھ جاتا ہے.
مثال کے طور پر ایک کلاس میں 40 طلباء ہیں۔

دوران لیکچر کوئی طالبعلم سوال کرتا ہے تو کچھ کے نزدیک وہ رائٹ ٹام نہیں تھا کہ سوال کیا جائے کیونکہ انکی توجہ ہٹ گئی اور FLOW ٹوٹ گیا۔
اب کچھ آنلائن کلاسز میں استاد محترم صرف اپنا لیکچر ڈیلیور کرتے ہیں۔اسکو سمجھنا طلباء کے ذمہ ہوتا ہے جیسے بھی سمجھیں۔
روایتی کلاس روم میں ، اساتذہ طلباء کو فی الفور روبرو رائے دے سکتے ہیں۔ وہ طلبا جو نصاب میں پریشانیوں اور مسائل کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں وہ لیکچر کے دوران یا وقف شدہ دفتری اوقات کے دوران بروقت حل کرسکتے ہیں۔

جبکہ آنلائن سسٹم میں ایسا نہیں۔
آنلائن تعلیمی سسٹم میں طالب علموں کے تاثرات کے ساتھ بھی کھلواڑ ہوتا ہے۔ یعنی جب تک طالب علم کی بات کی تشخیص نہ کی جائے تب تک وہ مطمئن نہیں ہوتا اگر ایسا نہ ہو پائے تو طالب علم ذاتی رائے دینے کے فقدان کا شکار ہو جاتا ہے۔
الغرض ہمارے آنلائن تعلیمی سسٹم میں اتنے زیادہ مسائل ہیں کہ طلباء اس سسٹم سے ہی نہیں بلکہ اس عجیب و غریب پڑھائی سے ہی تنگ آ چکے ہیں اس لیے اب وہ صرف نجات چاہتے تھے جو کسی حد تک انہیں بذریعہ شفیق وزیر تعلیم کی شفقت سے حاصل ہوئی۔

چھٹکارا پانے کی وجہ یہ مسائل تھے ان مسائل کو نہ تو عوام الناس دیکھ رہی تھی نہ ہی اقتدار پر بیٹھے لوگ۔
تنقید کرنے والوں کو چاہیے تھا اپنے چنیدہ الفاظ کے ذریعے حل بتاتے مسائل کو اجاگر کرتے نہ کہ قوم کو دو چار عدد گالیاں نکال کر کوستے۔
ہمیں بحیثیت اس ملک کے شہری ہونے کے اپنے مسائل کو اجاگر کرنا چاہیے اور مقتدر طبقات سے ان مسائل کو حل کرنے کی اپیل کریں تاکہ آئندہ مشکل حالات میں ہمیں ایک دوسرے کو کوسنا نہ پڑے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :