سانحہ ماڈل ٹاؤن تاریخ کا سیاہ باب

جمعرات 17 جون 2021

Hafiz Mohammad Zubair

حافظ محمد زبیر

قوموں کی تاریخ میں کچھ واقعات  ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر منائے جاتے ہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن ان واقعات میں سے ایک ہے۔ اس طرح کے واقعات میں ہونے والے بے گناہ جانی  نقصان کا ازالہ تو کسی صورت ممکن نہیں، لیکن لواحقین کے زخموں پر انصاف کی صورت میں مرہم ضرور رکھی جا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم ایسے معاشرے کا اور ایسے بزدل نظام کا حصہ ہیں جہاں آج تک کسی بھی مظلوم کو انصاف نہیں ملا۔

خواہ وہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والا راہ چلتا غریب ہو یا پھر کسی وڈیرے، جاگیردار کے تشدد کا نشانہ بننے والی ماں ہو، یا پھر کسی درندے کی درندگی کا نشانہ بننے والی معصوم بچیاں ہوں۔ الغرض ستر سالوں سے مسلط اس نظام میں ظالم کا پلڑا بھاری رہا ہے۔
جس نے بھی اس ظالمانہ نظام کو چیلنج کیا، اس کو گولی کی زبان میں جواب دیا گیا۔

(جاری ہے)

  جسکی سب سے بڑی مثال  قوم کو آرٹیکل 62,63 کا سبق یاد کروانے والے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی ہے جو گزشتہ  30 سالوں سے اس نظام کے خلاف لڑ رہے ہیں، لیکن وہ خود اس ظالمانہ نظام کے خلاف ٹکراؤ سے ظلم کا شکار ہو گئے۔

  جون 2014 میں ان کی رہائشگاہ پر حکومتی سرپرستی میں گولیوں سے وار کیا گیا۔
17 جون 2014 کو پیش آنے والے اس دردناک سانحے کی داستان پاکستان کی خونی داستانوں میں سے ایک ہے۔ پنجاب حکومت کےاحکامات پر 16 اور 17 جون 2014ء کی درمیانی شب 3 ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع تحریک منہاج القرآن کے مرکز اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر دھاوا بولا اور وہاں موجود کارکنان پر وحشیانہ فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 10 کارکنان فوری طور پر جبکہ مزید 4 بعد ازاں ہسپتال میں دم توڑ گئے۔

اسطرح اس دردناک سانحے میں 2 خواتین سمیت 14 افراد شہید ہوئے جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوئے۔
اس واقعے کے چشم دید گواہوں کی تعداد درجنوں نہیں سینکڑوں میں ہے،جبکہ الیکٹرانک میڈیا پر براہ راست اس ظلم و ستم کو ہزاروں لوگوں نے اپنی ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھا۔ لیکن یہاں صرف قانون نہیں انصاف بھی اندھا ہے۔ اس واقعے کے تین ماہ گزرنے کے بعد بھی ایف آئی آر تک درج نہ کی گئی، ایف آئی آر کے اندراج کے لیے لواحقین سمیت لاکھوں لوگوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں اسلام آباد میں دھرنا دیا۔

لیکن کسی نے داد رسی تک نہ کی۔ صرف  ایف آئی آر درج کروانے کے لیے اس وقت کے  چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔
اسوقت سانحہ ماڈل کیس ملک کی تینوں بڑی عدالتوں میں ہے، سات سال گزرنے کے باوجود کسی بھی قسم کی پیش رفت نہیں ہو رہی جبکہ اس کیس کے لیے ملک کے اعلیٰ ترین وکلاء کی خدمات لی جا رہی ہیں ، کروڑوں روپے اس کیس پر لگ چکے ہیں، جبکہ انصاف ہوتا دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔


2014 میں انصاف کی جدوجہد اوراس وقت پرامن ہونے والے احتجاج میں  موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب بھی شانہ بشانہ تھے، جنہوں نے قدم قدم پر انصاف کے حصول کے لیے سانحہ ماڈل کے لواحقین کے  ساتھ کھڑے رہنے کے وعدے کیے۔ حتی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے نام پر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹیں اور ووٹ مانگا۔
آج عمران خان صاحب اور انکی جماعت اقتدار میں ہے تحریک انصاف کو  اقتدار ملے تین سال مکمل ہو گئے  لیکن ان تین سالوں میں عمران خان صاحب نے انصاف کی کوشش تو دور کی بات سانحہ ماڈل ٹاؤن کا  ذکر تک کرنا گوارہ نہ کیا۔


خان صاحب وہ واحد وزیراعظم ہیں جن پر لوگوں نے اندھا اعتماد کیا لیکن محترم خان صاحب نے مظلوموں، بے سہاروں کی امیدوں کو پاش پاش کیا۔ اب شاید مظلوم عوام اپنا مسیحا چننے کے لیے اور اس پر اعتماد کرنے کے لیے  جرات ہی نہ کر پائے ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب اس ملک کی عدالتیں اسلام کے مطابق فیصلے کرے گی۔

مظلوموں کو انصاف ملے گا اور ظالم پکڑ میں آئے گا۔ اللّٰہ ہمارے وظن عزیز کی حفاظت فرمائے اور ظالموں کے ظلم سے ہمیشہ کے لیے نجات عطا فرمائے آمین۔
سلامت ہیں خدا کے فضل سے ہم ایسی دنیا میں
جہاں لاشیں تو ملتی ہیں مگر قاتل نہیں ملتے
جہاں کے ذرے ذرے سے صدائے عدل آتی تھی
اسی انصاف کے مندر میں اب عادل نہیں ملتے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :