حو اکی بیٹی کے ساتھ یہ ظلم کب تک؟

جمعرات 20 مارچ 2014

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عورت بیٹی، بہن ،بیوی اور ماں جس روپ میں بھی ہو اس کے بغیر انسانی معاشرہ نا مکمل ہے۔اسلام نے عورت کو انتہائی بلند مقام عطا کیا ہے ۔بیٹی ہے تو والدین کے لئے باعث رحمت اور ماں کے لئے قدموں تلے جنت جیسی ایک عظیم نعمت سے نواز دیا گیا۔لیکن افسوس پاکستان جیسے ملک جو پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ“کے نام پر وجود میں آیااور جہاں دو دفعہ ایک خاتون وزیر اعظم کا انتخاب ہوایہاں ”حوا کی بیٹی “ہمیشہ اپنے بنیادی فرائض کے معاملے میں نظر انداز کی گئی ہے ۔

بالخصوص دیہاتی نظام میں سانس لینے والی عورتیں آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا شکار نظر آتی ہیں ۔کئی زمانے گذر جانے کے بعد بھی یہ گینگ ریپ، زنا با لجبر ،جبری مشقت ،مار پیٹ،عزت کے نام پر قتل ،وراثت سے محرومی ،ونی اور کاروکاری جیسی قبیح رسموں کا نشانہ بنتی ہیں۔

(جاری ہے)

بلو چستان میں اپنے نا کردہ گناہوں کی پاداش میں زندہ در گورہونے والی خواتین کے بعد کچھ روز قبل ایک ایسا ہی واقعہ مظفر گڑھ میں پیش آیا جب گیارہویں جماعت کی طالبہ کوپانچ سے زائدانسان نما درندوں نے اپنی حوس کا نشانہ بنا یااورپھر درندگی کا کھیل کھیلنے والے ان وحشی مجرموں کو سفارش کی دیمک کی مانند چاٹتے طاقتوروں کے ہاتھوں گروی رکھے گئے قانون کے رکھوالوں نے بے قصور اور معصوم قرار دیتے ہوئے بے گناہ قرار دے دیا جس کی روشنی میں مقامی عدالت کے ” قبلہ جج صاحب“ نے بھی”یہ ثبوت نا کافی ہیں“ کا راگ الاپتے ہوئے ان کی ضمانت منظور کر لی۔


بے بسی کابوجھ اپنے جسم پر اٹھائے انصاف کی خاطر کئی روز با اثر وڈیروں کے ڈیروں کے چکر کاٹ کاٹ کے جب اس معصوم طالبہ اور اس کے بوڑھے والدین ان کی بے حسی کو دیکھ کر تھک ہار گئے تو انہوں نے حقوق نسواں کے نام پر ”ڈالر“ جمع کر نے والی این۔جی۔اوز کا دروازہ کھٹکھٹانے کی اپنی سی کوشیش کی جو بے سود رہی کیونکہ یہ کونسا مختاراں مائی جیسا کیس تھا کہ جب چیختی چلاتی ”نیوز الرٹ“ ان کے ڈالر بٹورنے کا ذریعہ بنی ہوئی تھیں ۔

یہ تو ایک دوردراز علاقے کی ایک کچی بستی کی لڑکی ہے بھلا اس کی امداد کے عوض انہیں کتنے نفلوں کا ثواب حاصل ،پھر نہ تو اس دفعہ نیوز الرٹ کا شور ہے اور نہ ہی عالمی قوتوں کا ”رولا“کہ جس کو دیکھتے ہوئے یہ لوگ اپنے فارن کرنسی بینک اکاؤنٹ بھر نے کی غرض سے ”حوا کی بیٹی“ کے ساتھ ہونے والے وحشانہ معاملے پر زبان درازی کر نے کی زحمت گواہ کرتے۔

مختاراں مائی سے یاد آیا کہ انصاف کی خاطر در ،در بھٹکنے والا یہ خاندان موصوفہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا لیکن ان کی طرف سے بھی ”گھِسے بپٹے“ تسلی کے اُنہی چندلفظوں سے اُن کی تواضع کی گئی۔سیاسی کارندوں، وڈیروں اور این ۔جی۔اوز کی چئیر پرسنز کے دفتروں کے طواف کر نے کے بعد جب اس بے بس طالبہ کو امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی تو پھر اس نے اپنے آپ کو آگ لگا کے اپنی بے بسی کا اظہار کیا جس کے بعداس ”نیوز الرٹ“ کو اپنے چینلز کی زینت بنا نے والے لوگوں کا ہجوم نظر آیا جسے دیکھتے ہوئے قانون کے رکھوالے آگ کے شعلوں میں لپٹی اپنی ستم ظریفی کی وجہ سے بے بسی اور لا چارگی کی آگ میں جلتی ”حوا کی بیٹی“ پر ریت ڈال کے اس کی آگ بجھانے اور اپنی کالی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف عمل دکھائی دے رہے تھے۔


درد سے بھرے شرمناک واقعے پر جس کی وجہ سے جسم میں غصے اور نفرت کی تپش ابھی کچھ کم بھی نہ ہوئی کہ ٹیلی ویژن سکرین لاہور کی سڑکوں پر کئی دنوں سے اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دئیے بہنوں ،بیٹیوں پر بد ترین لاٹھی برسانے کا منظر ایک عجب سماں پیش کررہی تھیں۔ خواتین پولیس اہلکاروں کے ساتھ مرد اہلکار پوی دلیری کے ساتھ” زخموں سے چور مخلوق “کی مرہم پٹی کر نے والی نرسوں کو جس بے دردی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے ایسے معلوم ہوتا تھا کہ یہ میدان جنگ ہے جہاں اسلام اور پاکستان کے دشمنوں سے جہاد فی سبیل اللہ کیا جار ہا ہو۔


ابھی اپنوں کا اپنوں کے لئے سجائے گئے میدان جنگ کا اختتام بھی نہ ہوا تھا کہ مظفر گڑھ میں خود سوزی کر نے والی معصوم طالبہ کی سسک سسک کر مرنے والی خبر نے ایک دفعہ پھر فرسٹریشن کی وادی کا مسافر بنا دیا جہاں میں اس سوال کا جواب کر نے کی کوشش کر رہاہوں کہ اس معاشرے میں ”حوا کی بیٹی“ کے ساتھ یہ سلوک آخر کب تک روا ء رکھا جائے گا اور کب تک آمنہ جیسی مزید بیٹیاں نا انصانی ،جبر اور ظلم کے نظام کے سامنے اپنے آپ کو بھینٹ چڑھاتی رہیں گی؟۔


ایک طرف تو ہمارے حکمران ”حوا کی بیٹی“ کو انصاف اور اس کو ہر طرح کا تحفظ دینے کے نعرے لگاتے ہیں جبکہ دوسری طرف سال 2014کی پہلی سہ ماہی میں 1601خواتین کا زیادتی کا شکار ہونا ان کے اس نعرے کو منہ چڑھاتا نظر آتا ہے۔رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب میں رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں 370سے زائد عورتوں سے زیادتی کی گئی جبکہ 185کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی۔

233عورتوں پر جنسی زیادتی کیلئے تشدد ہواجبکہ217زیادتی کے بعد قتل کر دی گئیں،52عورتوں نے زیادتی کے بعد خود کشی کی اور 23زندہ جلا دی گئیں۔واضح رہے یہ اعداد و شمار ان کیسز کے ہیں جو درج ہوئے اور جن کے زیادہ تر ملزمان پولیس کی ملی بھگت سے چھوٹ گئے ۔آمنہ اور اس جیسے دیگر واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ معاشرے کے بگڑے ہوئے اوباشوں ،وڈیروں اور طاقت ور سیاسی لونڈوں کو قابو کر نا یا کیفر کردار تک پہنچانا قانون کے رکھوالوں کے بس کی بات نہیں رہی۔

پولیس کی نا اہلی اور ناقص تفتیش نے ملزمان کے حوصلوں کو مزید تقویت فرا ہم کی ہے جس کی وجہ سے کرائم ریٹ بھی روز بروز تما م حدوں کو پار کر رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیشہ کی طرح چند پولیس اہلکاروں کو معطل کر کے اور خود بر ی الذمہ ہونے کی بجائے ایسا قانون بنایا جائے جو صرف نعروں کی بجائے حقیقت میں ”حوا کی بیٹی“ کو انصاف ا ور تحفظ فرا ہم کرے۔امید رکھی جا سکتی ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ قانون نافذ کر نے والے اداروں میں اصلاحات کرتے ہوئے اس قسم کے واقعات پر قابو پا یا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :