
فلسفہ شہادت حسین
اتوار 9 اکتوبر 2016

حافظ ذوہیب طیب
لیکن تاریخ اسلام پر نظر دوڑانے کے بعد جہاں کئی ایسے واقعات پڑھنے کے بعد ہمارے سر فخر سے بلند ہو جاتے ہیں وہاں اسلامی تاریخ کا دردناک اور تکلیف دہ واقعہ اسی مہینے کی 10تاریخ کو پیش آیاجس میں نواسہ رسول ﷺ سیدنا حسین اور بیشتر اہل بیت عظام کو انتہائی سفاکی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔
(جاری ہے)
خلافت راشدہ کے بعد پہلے حکمران امیر معاویہ نے اپنی آخری عمر میں اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ نامزد کر دیاجس پر مسلمانوں کی اکثریت نے اس غیر شرعی فیصلے کو قیصروکسریٰ کا طریقہ قرار دے کر رد کر دیا جس میں سے سب سے زیادہ مخا لفت جناب حسین نے کی ۔سنہ 60ہجری میں جب یزید نے باپ کی وصیت کے مطابق عنان خلافت سنبھالتے ہی والی مدینہ مروان بن حکم کو سیدنا حسین سے بیعت لینے کی تاکید کی تو ظلم اور جبر کے نتیجے میں قائم ہونے والے حکومت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے جناب حسین اور ان کے رفقا ء کار نے مدینہ چھوڑ کر مکہ کی راہ لی، تاکہ مروان کے دباؤ سے بچ سکیں۔
مکہ میں قیام کے دوران جناب حسین کو کوفیوں کی طرف سے پیغامات موصول ہونا شروع ہو گئے کہ آپ یہاں عراق یعنی کوفہ ہمارے پاس آجائیں ،یہاں سب آپ کے حمایتی اور خیر خواہ ہیں۔ جس پر جناب حسین نے اپنے اہل بیت کے ساتھ کوفہ جانے کا ارادہ کر لیا۔ کوفہ میں آپ کے بارے میں پوری مخبری ہو رہی تھی جس کی روشنی مین ابن زیاد نے ایک ہزار لشکر حر بن یزید کی قیادت میں بھیجا کہ یا تو جناب حسین سے بیعت لو یا انہیں گھیر کر میرے پاس واپس لے آؤ۔کچھ دنوں بعدعمرو بن سعدکی سر براہی میں ایک دوسرا لشکر جو چار ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا،پہنچ گیاجس نے بھی وہی مطالبے دہرائے۔لیکن جناب حسین نے ان دونوں کے مطالبات کو تسلیم کر نے سے یکسر انکار کر دیا اور کسی بھی صورت ظلم کے آگے سر تسلیم کر نے کی بجائے ظالم کے خلاف لڑنے کا علا ن کیاجس کے نتیجے میں ابن زیاد کے حکم پر قافلہ حسین پر پانی بند کر دیا گیاجس کے بعد شمر ذی الجوشن بھی مزید دستے لے کر آن پہنچااور حالات میں مفاہمت اورمصا لحت کا کائی امکان باقی نہ رہا۔
ظلم اور بد معاشی سے بر سر اقتدار آنے والوں کی طرف سے جناب حسین اور اہل بیت پر مظالم کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں جسے پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ 10،محرم الحرام سنہ 61ہجری کو کر بلا کے مقام پرپاک بیبیوں کو بے پردہ کیا گیا، خیموں کو آگ لگا دی گئی، معصوم بچوں کے گلے کاٹے گئے، جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور بالآخر ایک شقی القلب انسان، سنان بن انس نے آگے بڑھتے ہوئے نواسہ رسوال ﷺ، جگر گوشہ بتول ،سیدنا حسین کاسر مبارک تن سے جدا کر دیا۔
قارئین!جہاں واقعہ کر بلا ہمیں ایک عظیم قربانی کی یاد دلا تا ہے وہاں ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ ظلم، نا انصافی اور بر بریت کے آگے جھک جانے سے بہتر ہے کہ ظالمانہ نظام کے آگے کلمہ حق بلند کر نے کو ترجیح دیں جس طرح جناب حسین نے اپنے اسوہ حسنہ سے اپنے اہل بیت اور تما م امت کو اس پائے استقلال سے راہ حق کے مصا ئب و مشکلات برداشت کر نے کا سبق دیا۔میرے نزدیک جناب حسین اور ان کے رفقا ء کار کی شہادت کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوا تھا اور تا قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا کہ جہاں جہاں ظلم اور نا انصافی کا دور دورہ ہو گا وہ معاشرہ کو فہ کہلائے گا ، واقعہ کربلا ہم سے اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم بھی جناب حسین اور اہل بیت عظام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس ظالمانہ نظام کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہوئے یزیدیوں کا آلہ کار بننے کی بجائے حسینی قافلے کے مسافر بنیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
حافظ ذوہیب طیب کے کالمز
-
وزیر اعلیٰ پنجاب کی بہترین کارکردگی اور بدرمنیر کی تعیناتی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
دی اوپن کچن: مفاد عامہ کا شاندار پروجیکٹ
منگل 26 اکتوبر 2021
-
محکمہ صحت پنجاب: تباہی کے دہانے پر
جمعہ 8 اکتوبر 2021
-
سیدہجویر رحمہ اللہ اور سہ روزہ عالمی کانفرنس
بدھ 29 ستمبر 2021
-
جناب وزیر اعظم !اب بھی وقت ہے
جمعرات 16 ستمبر 2021
-
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی لائق تحسین کار کردگی !
ہفتہ 2 جنوری 2021
-
انعام غنی: ایک بہترین چوائس
جمعرات 22 اکتوبر 2020
-
ہم نبی محترم ﷺ کو کیا منہ دیکھائیں گے؟
ہفتہ 10 اکتوبر 2020
حافظ ذوہیب طیب کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.