پاکستان کی درباری سیاست و صحافت اور فلسفہ خوشامد

بدھ 12 جولائی 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

جمہوری پبلیکشنز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے خوبصورت کتابیں شائع کر کے معاشرے میں کتب بینی کا ایک نیا انداز متعارف کرایا، عمدہ ، جاذب نظر اور بہترین کتابوں کو مارکیٹ کرنا ، اس کا سہرا بھی اس کے سر سجتا ہے اور سب سے بڑی بات کہ بغیر کسی خوف و خطر ، جو کتاب کوئی تگڑا پبلشر چھاپنے کی ہمت نہ رکھتا ہو ،اسے جمہوری پبلیکشنز بڑے دھڑلے کے ساتھ شائع کرتا ہے۔

حالیہ دنوں میں جس کی مثال صدر الدین ہاشوانی کی ، تلخ حقائق سے مزین کتاب ”سچ ہمیشہ غالب رہتا ہے“ کو شائع کر نا ہے ۔ جس کے نتیجے میں بڑوں کے جس نفرت بھرے غصے کا سامنا ان لوگوں کو کر نا پڑا ، میں بخوبی اس سے واقف ہوں ۔اس ہمت، حوصلہ اور استقلال کے پیچھے جمہوری کے روح رواں اور معروف صحافی وکالم نگار جناب فرخ سہیل گوئندی کی خوبصورت شخصیت کار فرما ہے ۔

(جاری ہے)

بلاشبہ گوئندی صاحب بھی اپنی طرز کے واحد قلم کار ہیں جولفظ ”سینئر“ کی طاقت کے نشے میں مست نہیں ہوتے بلکہ جونئیرز کے ساتھ، ان جیسا ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں ۔
قارئین ! یہ ان کی محبت کا نتیجہ ہے کہ آئے روز خوبصورت کتابوں کا انمول تحفہ بھیجتے رہتے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں پروفیسر وارث میر کی کتاب” فلسفہ خو شامد“موصول ہوئی جس میں پاکستان کی در باری سیاست وصحافت کوبہت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔

اس کتاب کو پڑھ کر اس بات کا افسوس بھی ہوا کہ کئی سال گذر جانے کے باوجود بھی اہل سیاست و صحافت کا قبلہ درست نہ ہوا ۔ وہ آج ، کل کی نسبت زیادہ” فلسفہ خوشامد “ کے فلسفہ پر کابند ہو کر اپنے ایمانوں اور ضمیر کا سودا سر بازار کرتے نظر آتے ہیں۔
پروفیسر وارث میر جو پاکستان میں حق ، سچ اور جرات کی صحافت کے وارث سمجھے جاتے ہیں اور میرے نزدیک وہ ایک سچے، کھرے اور بے باک صحافی ، محب وطن مفکر و دانشور اور نسلوں کو علم کی شمع سے محبت کرنے کا درس دینے والے استاد تھے ۔

انہوں نے اپنا صحافتی کیرئیر ایوب کی آمریت کے سیاہ دور میں شروع کیا جو ضیا کے دور آمریت میں جواں مرگی کی صورت اختتام پذیر ہوا۔ان دونوں ادوار میں حق اور سچ بات کہنا جرم جبکہ حکمرانوں کے قصیدے پڑھنا اور لکھنا قابل فخر سمجھا جا تا تھا۔ اہل صحافت کا ایک بڑا طبقہ اس دور میں بھی فلسفہ خودی کے گلے پر فلسفہ خوشامد کا بھاری بھر پتھر رکھ کر اسے ابدی نیند سلا دیتا تھا ۔

لیکن میر صاحب جیسے نڈر اور سچے لوگ اس دور میں بھی حکمرانوں کی کالی کرتوتوں کو منظر عام پر لاتے بلکہ اس کے نتیجے میں دھمکیوں، جیلوں اور کربناک حا لات ان کا مقدر ٹہرتے۔یہی وجہ ہے کہ آج اتنے سال گذرجانے کے بعد بھی پروفیسر وارث میر لوگوں کے دلوں میں زندہ وجاوید ہے ۔ ان کی یادیں ، ان کی باتیں اور ان کے اقوال ، آج بھی ہم جیسے طالبعلموں کو حوصلہ دیتی ہیں کہ چاہے کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں ،ظالم کو ظالم لکھنا چاہئے۔


قارئین کرام ! ویسے تو اس کتاب کا ہر ہر لفظ اپنے اندر جاذبیت چھپائے ہوئے ہیں کہ جسے کئی دفعہ پڑھنے کو جی چا ہتا ہے ۔ لیکن آپ کے ذوق مطالعہ کے کے لئے صرف ایک اقتباس پیش کر رہا ہوں تاکہ کتاب اور اس کے عنوان کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے ۔ وارث میر اپنے عہد کے صحافیوں اور ایڈیٹروں کے کردار سے مطمئن نہیں تھے جس کا اندازہ ان کی اس تقریر سے ہو تا ہے کہ :”صحافت کو بر باد کر نے میں کارکن صحافیوں اور اخبارات کے مالکان کا ہاتھ ہوتا ہے ۔

آج کا صحافی حکومتوں کے قصیدے گاتا ہے ۔وہ حاکم وقت سے لڑائی مول نہیں لیتا۔جو کردار حکومت کو ادا ء کر نا چاہئے وہ کردار آج کے اخبار کا ایڈیٹر سر انام دے رہا ہے ۔ کارکن صحافی یہ سمجھتا ہے کہ آزادی ء صحافت اس کا مسئلہ ہے ، لیکن آزادی ء صحافت کبھی بھی کارکن صحافی کا مسئلہ نہیں رہا ، یہ مسئلہ ہی اخبار کے مالک کا رہا ہے ۔آج کا اخبار نویس، صحافی نہیں رہا بلکہ پبلک ریلیشن افسر بن کر رہ گیا ہے ۔

“ بلکہ میں اس بات کو مزید بڑھاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ اب جو صحافی فلسفہ خوشامد کے تحت تما م حدوں کو توڑدیتا ہے تو اسے سینئیر صحافی کے لقب سے نواز دیا جا تا ہے ۔
عامر میر کے بقول:”فلسفہ خوشامد ، پاکستانی سیاست اور صحافت میں یکجا کی جانے والی تحریریں دور حاضر کے تنا ظر میں پڑھی جائیں تو آج بھی اس قدر زندہ اور تازہ محسوس ہوتی ہیں جتنا کہ ماضی میں اپنی اشاعت کے وقت تھیں۔

پروفیسر وارث میر کی ماضی کی تحریروں میں ہمیشگی اورا ٓج کے حالات سے مطابقت رکھنے کی بنیادی وجہ شاید یہی ہے کہ پاکستان کے ریاستی ، سیاسی، صحافتی ،معاشرتی اور سماجی مسائل اور ان سے وابستہ بحثیں اور کنفیوژن آج بھی ویسے ہی بر قرار ہیں جیسے کئی دہائیاں پہلے تھی“۔ میں بھی عامر میر طرح یہ امید رکھتا ہوں کہ یہ کتاب صحافت و سیات کے اچھے اور برے کرداروں کے حوالے سے تاریخ میں موجود غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کا ازالہ کر نے میں کافی حد تک معاون ثابت ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :