قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن اور ازبکستان

بدھ 4 جولائی 2018

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

قاسم علی شاہ ایک فرد نہیں بلکہ پوری تحریک کا نام ہے ۔ ایک ایسا نوجوان جس کی سینے میں قوم کے لئے کچھ کر گذرجانے کا جذبہ موجود ہے اور وہ اسی جذبے کو لئے گلی گلی، شہر شہر جاتا ہے اور مایوسی اور نا امیدی کی وادیوں کے مسافروں کو امید اور یقین کی دولت سے مالا مال کرآتا ہے ۔ اب تک ہزاروں لوگ جن کے لئے زندگی کسی عذاب سے کم نہ تھی ، وہ شاہ صاحب کے لیکچر اور گفتگو سن کر زندگی کو انجوائے کر نا شروع ہو گئے ہیں ۔

میں کئی ایسے لوگوں سے بھی واقف ہوں جو حالات کے جبر کی وجہ سے خود کشی جیسی لعنت کو اپنے سینے سے لگانے کا ارادہ کئے ہوتے ہیں لیکن شاہ صاحب کے کسی ایک لیکچر ، ایک فقرے اور کسی بات کی وجہ سے اپنے ارادے کو خاک میں ملا ڈالتے ہیں ۔ شاہ صاحب جہاں امید، یقین، تعلیم و آگہی ، اخلاقیات کو فروغ دے رہے ہیں وہاں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے بھی اپنی صلاحتیں استعمال کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)


ان کا کہنا ہے کہ جب تک آپ سیاحت نہیں کرتے، قدرت کی نعمتوں سے ٹھیک طرح لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بغیر کسی منافع کے مختلف گروپس کی شکل میں لوگوں کو تاریخی ممالک کی سیر کراتے اور یہاں کی تاریخی حیثیت سے روشناس کراتے ہیں ۔حالیہ دنوں میں ایک ایسا ہی گروپ ازبکستان کی سیر کرکے آیا ہے جن کے اعزاز میں لاہور کے مقامی ہوٹل میں ایک تقریب کا اہتمام قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن نے کر رکھا تھا جس میں پاکستان میں تعینات ازبکستان کے سفیر مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھے ۔

یقین جانیں میں سفیر محترم کی سادگی ، اپنے ملک کے لئے ان کی حب الوطنی اور فروغ سیاحت برائے ازبکستان کے لئے ان کی کاوشوں کو دیکھ کر حسد میں مبتلا ہو گیا اور اس سوچ میں گم ہو گیا کہ کاش ہمارے سفیر حضرات بھی عیاشی اور پروٹوکول کے چکروں سے باہر نکل کر پاکستان کی بات کریں ۔
قارئین ! جس طرح اس تقریب میں موجود ہر شخص ازبکستان کی تاریخی حیثیت ، یہاں کے لوگوں کی محبت کی داستانیں اور شہروں کی خوبصورتی کے بارے بتا رہا تھا ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شاید یہ دنیا میں جنت کا کوئی ٹکڑا ہے ۔

میں نے اپنے طور پر اس کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے کچھ مواد جمع کیا ہے جو اپنے قارئین کرام کی نظر ر رہا ہوں ۔ اُزبکستان ایک ایسے علاقے میں شامل تھا جو تاریخ کے دوران مختلف ناموں سے جانا جاتا رہا۔اُس علاقے کو ماوراء النہر (یعنی دریاوں کے بیچ واقع ملک تارتاری اور تُرکستان کہا جاتا تھا۔ اُزبکستان کے کچھ شہر شاہراہِریشم کے قریب واقع تھے۔

پندرہویں صدی کے شروع سے اِس راستے پر سفر کرنے والے تاجر اِن شہروں میں ٹھہرا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب شاہراہء ریشم چین کو بحیرہ روم سے ملاتی تھی۔ آجکل اُزبکستان میں کپڑے کی صنعت میں زیادہ تر چیزیں ریشم کی بجائے کاٹن سے بنائی جاتی ہیں۔ بازاروں میں کاٹن، اُون یا ریشم کے بنے خوبصورت قالین بھی فروخت کیے جاتے ہیں۔صدیوں کے دوران اُزبکستان کی ثقافت پر بہت سی قوموں نے گہرا اثر ڈالا ہے۔

کئی مشہور فاتحین اور اُن کی فوجیں اِس کے شہروں پر قبضہ کرنے کے لیے اِس کے پہاڑی اور ریگستانی علاقوں سے گزریں۔اِن فاتحین میں سکندرِاعظم شامل تھے جنہوں نے یہاں کی ایک مقامی لڑکی رُخسانہ سے شادی کی۔منگولیا سے تعلق رکھنے والے چنگیز خان نے بھی اِس علاقے پر قبضہ کِیا۔ اور بعد میں امیر تیمور نے اِس علاقے کو فتح کر لیا جو کہ اُن کا آبائی علاقہ بھی تھا
قارئین کرام ! اس ملک کے ترقی اور عظمت کا اندازہ اس رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے کہ ازبکستان کی حکومت نے اپنے شہریوں کو انتباہ جاری کیا ہے کہ یا تو وہ اپنے گھر کے ساتھ موجود باغیچے کو بہتر انداز میں استعمال کریں یا پھر تین گنا ٹیکس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

ریو ڈاٹ از نامی ویب سائٹ کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہر سال میں دو مرتبہ مختلف علاقوں میں آبادیوں میں ہر گھر کا دورہ کیا جائے گا اور یہ جائزہ لیا جایے گا کہ عوام کھیتی باڑی، گرین ہاؤس کے قیام اور اپنے لائیو سٹاک یا مرغیوں کو پالنے میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں رپورٹ کے مطابق اگر پولیس، محکمہ ٹیکس کے اہلکار اور مقامی پراسیکیوٹر نے یہ دیکھا کہ مقامی افراد اپنے گھر کے ساتھ موجود زمین کو فصلیں اگا کر یا فارم کے جانور پال کر بہتر مصرف کے لیے استعمال میں نہیں لا رہے تو پھر انھیں زمین پر تین گنا زائد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

یہ نئے احکامات ملک کے صدرکی اس بات پر مایوسی کے بعد جاری ہوئے ہیں کہ شہری خوراک مثلاً آلو اور دودھ کو خریدنے کے لیے بازار کا رخ کرتے ہیں۔گذشتہ ہفتے کن ڈاٹ از نامی ویب سائٹ پر اس حوالے سے صدر کے الفاظ کچھ یوں شائع کیے گئے۔’مجھے افسوس ہے کہ لوگوں نے مشقت کرنی چھوڑ دی ہے۔ ازبک لوگوں کو اپنے باغیچے میں کام کرنا چاہیے۔یاد رہے کہ سنہ 2016 میں صدر کے عہدے کے لیے منتخب ہونے والے شوکت مزییوئف اپنے ہی گھر کے ساتھ موجود خالی جگہ پر کام کرنے کے حوالے سے لوگوں کے لیے اجنبی شخصیت نہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق ان کے پاس 110 مرغیاں ہیں اور وہ ان سے حاصل ہونے والے انڈے اپنے آبائی علاقے میں بھیج کر ان کے بدلے میں گوشت اور دہی لیتے ہیں۔وہ ہر ہفتے اپنے بچوں کے ساتھ مل کر مرغیوں کا شیڈ صاف کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :