دیسی لبرلز

ہفتہ 9 جنوری 2021

Hamas Qazi

حماس قاضی

‏مجھے دیسی لبرلز ز سے مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ ان کی منافقت ہے. انہوں نے اسلام اور لبرل ازم کو ایک دوسرے کی ضد کے طور پر پیش کیا ہے دنیا میں حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں.   لبرل اقدار تو اسلام کی بنیادوں میں تھے. انسانی حقوق کا مکمل چارٹر دیا گیا دین میں غلامی ہو یا عورتوں کے حقوق   ہوا یہ کہ مغرب میں یہ اصطلاح اس وقت وجود میں آئی جب انہیں غلامی سے چھٹکارا اور سماجی طبقات کو مساوی حقوق دینے پڑے.

لبرل ازم نے جنم لیا کیونکہ ان کے پاس پہلے سے کو ضابطہ نہیں تھا.
دیسی لبرلز یہ نہیں بتاتے کہ گوروں کے ہاتھوں یرغمال افریقہ کے غلاموں میں اسلام کیوں مقبول ہوا؟‏اسلام سب سے زیادہ سماجی طور پر لبرل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے.

(جاری ہے)

المیہ یہ ہے کہ لبرل ازم کا موجودہ چہرہ این جی اوز اور ان کے کارندوں نے اس قدر مسخ کر دیا ہے کہ فحاشی، بدزبانی، اور سماجی شکست و ریخت اس کی نمائندہ لگتی ہے.
یہ بذات خود لبرل اقدار کے ساتھ ایک فراڈ ہے.‏جس انسانی غلامی سے دیسی لبرلز کے آقاؤں کے مہذب معاشرے اب تک نجات نہیں پا سکے اسلام نے انہیں چودہ سو سال پہلے ختم کر دیا تھا.

بھارت میں آج بھی کئی اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے ہیں.
علوم کی ترویج، مثالی شہر آباد، سماجی و معاشی انصاف اسلام نے اس وقت قائم کیا جب یہ جہالت میں غرق تھے.‏بنیادی طور پر لبرل ازم کو کسی مذہب کی ضد کے طور پر پیش کرنا ہی فکری بددیانتی ہے. کیونکہ لبرل ازم مذہب نہیں بلکہ انسانی حقوق سے متعلق نظریہ ہے جو اب بھی نامکمل ہے. کیونکہ آج بھی مغرب میں حبشی کم تر انسان ہیں اور اسلام میں چودہ سو سال پہلے بلال حبشی مسجد نبوی کے موذن تھے.‏
‏اب آتے ہیں پاکستان کی طرف، میرے نزدیک بانی پاکستان قائد اعظم سے بڑا لبرل لیڈر برصغیر میں کوئی نہیں تھا.

علمائے سُو ان کو اسی نظر سے دیکھتے تھے جس نظر سے آج عمران خان کو دیکھا جاتا ہے.
جن کے اجداد جناح کو کافر گردانتے تھے آج ان کی اولادیں عمران خان کو یہودی گردانتی ہیں شدت پسند چاہے دائیں بازو سے ہوں یا بائیں بازو سے دونوں کو قائد اعظم اتنا ہی ناگوار گزرتا تھا جتنا آج عمران خان. یہ ایک حقیقی مسلم لبرل کی نشانی ہے. جہالت زدہ دایاں بازو ہو یا ایجنڈا زدہ بکاؤ بایاں بازو دونوں کو لبرل مسلم شناخت سے ایک جیسی نفرت ہے.‏موجودہ پاکستانی سماج کا المیہ یہ ہے کہ حقیقی مسلم لبرل شناخت کو مسخ کرنے کے لیے دائیں اور بائیں بازو دونوں درپردہ یکجا نظر آتے ہیں.
جس کی ایک جھلک آپ نے جے یو آئی کے آزادی مارچ کے دوران دیکھی تھی.

عمومی طور پر بظاہر ایک دوسرے کو کوستے ہوئے مُلا اور دیسی لبرلز ایک ہی کنٹینر پر تھے.‏میں جب ٹویٹر پر پاکستانی سرکل میں آیا تو تمام دیسی لبرلزز کو فالوو کرتا تھا کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ یہ عمران خان کے اصل ساتھی ہونگے نظریات کی جنگ میں. پھر میں نے ان کی مغلظات، منافقت اور بددیانتی دیکھی تو مجھے ان کی پروفائلز میں لکھی عبارت سے گھن آنے لگی.

سماجی راہزن ہیں یہ لوگ.‏مجھے دکھ ہوتا ہے پاکستانی ایکیڈیمیا پر. یہ لوگ کسی بھی طور پر نالائق نہیں ہیں. دنیا کے بہترین اداروں سے پڑھے ہوئے لوگ کیسے وہ زندگی جی رہے ہیں جس کو آفاقی طور پر بُرا گردانا گیا.
نا بات کرنے کی تمیز، نا برداشت، لفظ لفظ منافقت سے اٹا.‏‏عمران خان کے حقیقی مسلم لبرل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ دائیں بازو کے شدت پسند ان کو مغرب کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں جو دین سے کوسوں دور ہے.

جبکہ بائیں بازو کے نام نہاد دانشور کبھی ان کو طالبان خان تو کبھی ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والا مذہبی شدت پسند کہتے ہیں.
‏حالانکہ ریاست مدینہ دنیا کی پہلی فلاحی مملکت تھی. جس میں غلامی کی حوصلہ شکنی کی گئی. ریاست نے معیشت اور سماج کو قانونی طور پہ انصاف پر قائم کیا.
اقلیتوں کو مکمل طور پر تحفظ فراہم کیا. نسلی تعصب اور عورتوں سے امتیازی سلوک کو ختم کیا.

دیسی لبرلز کے مغرب نے اس کو پیپر پر صدیوں بعد لکھا‏اگر صرف بیت المال اور اس کا صَرف سمجھ لیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی ریاست مدینہ کا منشور کیا تھا اور فلاحی مملکت کی موجودہ مغربی مثالیں کہاں سے عوامی فلاح کے خدوخال لائیں.
قاضی کا اسلامی معاشرے میں کردار ہو یا بیت المال کا قیام مثالی تھے. ریاست حقیقتاً ماں تھی. یہی عمران چاہتا ہے‏دیسی لبرلز ہمیں بتاتے ہیں کہ اسلام میں اصلاحات کی ضرورت ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ ہمیں دی گئیں اصلاحات نافذ کرنے کی ضرورت ہے.

مگر یہ کبھی اس بابت بات نہیں کریں گے. ان کی اکثریت تو سرے سے ہی منکر ہے کہ مسلم معاشرے کبھی ترقی یافتہ بھی تھے. جس کی تازہ مثل ماہر سماجیات ڈاکٹر ندا کرمانی ہیں‏پاکستان میں کوئی بھی ناگہانی آفت آجائے آپ دیکھیں گے ان کا گراؤنڈ پر زیرو کنٹریبیوشن ہوگا. یہ پروپیگنڈا کریں گے اسے چھاپیں گے اور نام نہاد این جی اوز سے مال بٹوریں گے.
معاشرے کی فلاح کے لیے کوئی عملی قدم اٹھانا تو درکنار بلکہ ایسے کام کی حوصلہ شکنی کریں گے.
‏اب بے شک مغربی لبرل ازم کو ہی پڑھ لیں اور پھر ہمارے نام نہاد لبرلز کو دیکھ لیں.

اگر ان کے رویوں کا تعلق لبرل ازم کی بنیادی اقدار سے کسی طور ثابت ہو جائے تو میں مجرم.
یہ سارے ٹھگ اور وارداتئیے ہیں جس طرح دائیں بازو میں نام نہاد مُلا ہیں.‏منافقت کی انتہا یہ کہ سارا دن آزادی اظہار رائے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اس کی آڑ میں لوگوں کو مغلظات بکتے ہیں. مگر کوئی ان سے ذرا سا بھی اختلاف کر لے اس کی آواز دبانے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں.
لبرل ازم تو اختلاف رائے کو پروموٹ نہیں کرتا؟‏جس بات پر مجھے ان سے شدید گھن آتی ہے وہ انکی عمران مخالف نفرت نہیں ہے. بلکہ ان کا وہ ظلم ہے جو انہوں نے لبرل ازم کے ساتھ کیا ہے. آج عوام کی اکثریت کے لئے انہوں نے لبرل لفظ کو ہی گالی بنا دیا ہے.انہوں نے لادینیت اور فحاشی کو لبرل ازم کا استعارہ بنا کر  رکھ دیا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :