
بھارتی سیاہ کاریاں کب تھمیں گی حماد اصغرعلی
بدھ 19 اگست 2020

حماد اصغر علی
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
(جاری ہے)
ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک پاکستان کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کی ۔قائدنے بجا فرمایا کہ ” درحقیقت پاکستان تو اسی روز وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا۔مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے ، ہندوستان کا پہلا فرد جب مسلمان ہوا تو وہ ایک جداگانہ قوم کا حصہ بن گیا اور ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی“۔ دو قومی نظریہ کیا ہے؟ اسے سمجھنے کے لئے کسی افلاطونی ذہنیت یا ارسطو ہونا ضروری نہیں بلکہ یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہندو اور مسلمان ہزاروں سال ایک ساتھ رہنے کے باوجود مذہبی، معاشرتی اور ثقافتی لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ رہے ۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت کے دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کی 94.9 فیصد اور شہری علاقوں میں 61.1 فیصد خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔دیہی علاقوں کی 54.6 فیصد اور شہری علاقوں کی 60 فیصد نے کبھی سکول کا منہ نہیں دیکھا۔دیہی علاقوں میں مسلم آبادی کے 0.8 اور شہری علاقوں میں 3.1 مسلم گریجوئیٹ ہیں اور 1.2 پوسٹ گریجوئیٹ ہیں۔
اگرچہ مغربی بنگال کی کل آبادی کا 27 فیصد مسلمان ہیں۔مگر سرکاری نوکریوں میں یہ شرح 4.2 % ہے۔آسام میں یہ شرح 40 % مگر نوکریاں 11.2% ،کیرالہ میں 20% آبادی کے پاس 10.4 فیصد سرکاری نوکری ہے ۔واضح رہے کہ بھارتی فوج اور خفیہ اداروں نے اپنے یہاں سے معلومات کے حصول کی اجازت ہی نہیں دی تھی مگر عام رائے یہ ہے کہ ان اداروں میں مسلم نمائندگی کی شرح کسی طور بھی 1.75 فیصد سے زائد نہیں۔
اس تصویر کا یہ رخ اور بھی بھیانک ہے کہ مہاراشٹر میں مسلمان کل آبادی کا 10.6 فیصد ہیں مگر یہاں کی جیلوں میں موجود قیدیوں کا 32.4 فیصد حصہ مسلمان ہے۔دہلی کی آبادی میں مسلمان 11.7 فیصد مگر جیلوں میں کل قیدیوں کا 27.9 فیصد،صوبہ گجرات کی جیلوں میں کل بند افراد کا 25.1 فیصد مسلمان ہے جبکہ آبادی میں یہ تناسب 9.1 فیصد ہے،کرناٹک کی جیلوں میں 17.5 فیصد مسلمان بند ہیں جبکہ آبادی میں یہ تناسب 12.23 فیصد ہے،مہاراشٹر کی جیلوں میں ایک برس سے زائد مدت سے قید افراد میں 40.6 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
بھارتی مسلمانوں کو اس عجیب صورتحال سے بھی دو چار ہونا پڑتا ہے کہ بی جے پی اور اس کے ہم نوا کہتے ہیں کانگرس نے مسلمانوں کو خوش کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے جبکہ کانگرس سمیت تمام سیکولر پارٹیاں، انڈین آرمی،خفیہ ادارے،پولیس ،میڈیا اور عدلیہ کا بڑا حصہ بھارت کے ساتھ ان کی وفاداری کو مشکوک سمجھتا ہے ۔بنکوں سے قرضہ ملنا تو دور کی بات اپنے آبائی علاقوں کے باہر کرائے پر دکان یا مکان دیا جانا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔
ایسے میں وطنِ عزیز کے سبھی حلقوں کو پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار کو سامنے رکھنا چاہیے اور خود احتسابی اور خود مذمتی میں حائل بہ ظاہر معمولی لیکن در حقیقت انتہائی اہم فرق ملحوظ رکھا جائے کہ با شعور اور زندہ قوموں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ اس بابت اصل ذمہ داری مقتدر طبقات (بھلے ہی وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں)،سول سوسائٹی اور میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
حماد اصغر علی کے کالمز
-
آکسیجن کا بحران اور پاکستان سٹیل ملز
منگل 4 مئی 2021
-
بڑھتی گلو بل وارمنگ۔کیسے قابو پایا جائے؟
ہفتہ 20 فروری 2021
-
گلگت بلتستان میں بھارتی دہشتگردی کے ثبوت
منگل 9 فروری 2021
-
افغان خواتین کی آبروریزی اور آر ایس ایس غنڈے
جمعہ 8 جنوری 2021
-
خواتین بے حرمتی ۔بھارت کی پہچان بنی
اتوار 4 اکتوبر 2020
-
مودی کا جنم دن اور بابری شہادت
بدھ 23 ستمبر 2020
-
’نیب‘ساکھ میں بتدریج اضافہ۔ایک جائزہ
پیر 14 ستمبر 2020
-
بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور چین کا کرارا جواب !
منگل 8 ستمبر 2020
حماد اصغر علی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.