’نیب‘ساکھ میں بتدریج اضافہ۔ایک جائزہ

پیر 14 ستمبر 2020

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

یہ بات توشائد یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ بدعنوانی ایسا ناسور ہے جو کسی بھی ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر سکتا ہے اور اس حوالے سے اسے ایک مثبت پیش رفت ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ نیب کے موجودہ سربراہ اس لعنت کے خاتمے کیلئے خاصی سنجیدگی سے جہدوجہد کرتے نظر آرہے ہیں ۔ اسی تناظر میں 11ستمبر کو چیئرمین نیب کی زیر صدارت نیب ہیڈ کوارٹرز میں اجلاس منعقد ہوا۔

اس اجلاس میں شوگر کمیشن کی رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لینے کے علاوہ مبینہ شوگر سبسڈی سکینڈل کی قانون کے مطابق تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی۔اسی ضمن میں نیب سربراہ نے ہدایت کی کہ تحقیقات میں تمام متعلقہ افراد اور محکموں کو اپنی صفائی کا پورا موقع فراہم کیا جائے اور غیر قانونی طریقہ سے چینی سبسڈی وصول کرنے والے ہر اس شخص کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے جن کو غیر قانونی طریقے سے چینی پر سبسڈی دی گئی۔

(جاری ہے)


یاد رہے کہ مذکورہ ٹیم میں دو انویسٹی گیشز افسران، فنانشل ایکسپرٹ، لیگل کنسلٹنٹ، شوگر انڈسٹری کے معاملات کے بارے میں تجربہ رکھنے والے ایکسپرٹ، فرانزک ایکسپرٹ اور کیس افسر/ایڈیشنل ڈائریکٹر اور متعلقہ ڈائریکٹر شامل ہوئے۔ تحقیقات کی نگرانی ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی کریں گے جبکہ چیئرمین نیب، ڈپٹی چیئرمین نیب، پراسیکیوٹر جنرل اکاؤنٹیبلٹی اور ڈی جی آپریشنز مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کا نیب ہیڈکوارٹرز میں ماہانہ جائزہ لیا جائے گا۔


 تحقیقات کو مکمل کرنے کیلئے تمام صوبوں سے چینی سبسڈی سے متعلق مکمل تفصیلات معلوم کرنے کے علاوہ ایس ای سی پی سے متعلقہ کمپنیوں کی مالی اور آڈٹ رپورٹس اور دیگر متعلقہ اداروں سے معلومات حاصل کرکے معاملہ کی تہہ تک پہنچا جائے گا۔
اسی تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے کہا ہے کیوں کہ جسٹس جاوید اقبال سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس بھی رہے ہیں علاوہ ازیں ایبٹ آباد کمیشن اور لاپتہ افراد کی کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ وسیع تجربے کے مالک ہیں بلکہ دنیا بھر میں انہیں ایک معتبر شخصیت کے طو رپر جانا جاتا ہے ۔


اس بات سے بھلا کسے انکار ہو سکتا ہے کہ بدعنوانی ملک کی خوشحالی اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کرپشن کے جڑ سے خاتمے کیلئے قومی احتساب بیورو (نیب) کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کی جانب ایک انتہائی اہم قد م تھا۔ اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی حق حلال کی کمائی ہوئی لوٹی گئی رقم برآمد کر کے قومی خزانے میں جمع کروائی جا سکے اور ایسے عناصر کو قرار واقعی سزا دی جاسکے ۔


نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے اپنی تعیناتی کے بعد قومی احتساب بیورو کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے اور اسے ایک فعال ادارہ بنانے کے لئے قومی احتساب بیورو میں بدعنوانی کے خاتمہ کیلئے زیرو ٹالرینس اور خود احتسابی کی پالیسی اپنائی اور کسی بھی قسم کے دباو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے میرٹ اور قانون کے مطابق بدعنوان عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا جو عزم کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔

نیب سربراہ نے قومی احتساب بیورو کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کیلئے مختلف مواقع پر بہت سی نئی اصلاحات متعارف کروائیں۔
موصوف انتہائی ایماندار، قابل، میرٹ، غیر جانبداری، شواہد اور شفافیت کی بنیاد پر بلاخوف اور بلاتفریق قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی ساکھ کے حامل ہیں ، شائد یہی وجہ ہے کہ پل ڈاٹ کی رپورٹ کے مطابق عوام کا نیب پر اعتماد 42 فیصد ہے جبکہ پولیس اور دوسرے تحقیقاتی اداروں پر 30 فیصد ہے۔


 اس کے علاوہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل، ورلڈاکنامک فورم اور مشال پاکستان نے بھی نیب کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ نیب شکایات کو جلد نمٹانے کیلئے اور کام کرنے کے طریقہ کار میں جہاں بہتری لا یا ہے وہیں اس ادارے نے شکایات کی تصدیق، اس کی انکوائری اور انکوائری سے لے کر انویسٹی گیشن اور احتساب عدالت میں قانون کے مطابق ریفرنس دائر کرنے کے لئے تقریباً (10) دس ماہ کا عرصہ مقرر کیا جس کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔


یاد رہے کہ قومی احتساب ادارے نے انویسٹی گیشن آفیسرز کے کام کو مزید موثر بنانے کے لئے سی آئی ٹی (CIT) کا نظام بھی قائم کیا ہے ۔ نیب نے اسلام آباد میں فرانزک سائنس لیبارٹری کے علاوہ پاکستان انٹی کرپشن ٹریننگ اکیڈمی قائم کی ہے جس میں انوسٹی گیشن افسران کو جدید خطوط پروائٹ کالر کرائمز کی تحقیقات کرنے کے لئے ٹریننگ دی جا رہی ہے جس کیانشااللہ مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔


وا ضح رہے کہ اس وقت ملک کی احتساب عدالتوں میں 1229 بدعنوانی کے ریفرنسز زیر سماعت ہیں جس کی کل مالیت تقریبا 900 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں نیب نے تقریباً 178 ارب روپے بدعنوان عناصر سے بلا واسطہ اور بالواسطہ برآمد کر کہ قومی خزانہ میں جمع کروائے ہیں جو کہ ملکی ترقی و خوشحالی کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔
 یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے قومی احتساب بیورو کے ادارے نے چین کے ساتھ انسداد بدعنوانی کے ایم او یو پر دستخط کیے ہیں جو کہ پاکستان کے لئے یقینا اعزاز کی بات ہے۔

جسٹس جاوید اقبال ”احتساب سب کیلئے“ کی پالیسی پر گامزن ہیں اور ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ان کی اولین ترجیح ہے۔
 نیب نے گزشتہ 30 ماہ میں کرپشن کے خاتمے کیلئے جو اقدامات اٹھائے وہ خاصے قابل تحسین ہیں اور ان اقدامات کے نتیجے میں نیب ملک سے بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے معتبر اور موثر ادارہ بن چکا ہے۔ سربراہ نیب محنتی، ایماندار، دیانت دار، میرٹ، شفافیت اور قانون کے مطابق کام کرنے والے افسروں کو شاباش دیتے ہیں بلکہ نااہل، بدعنوان افسران، اہلکاروں کے ساتھ قانون کے مطابق سختی سے نمٹنے پر یقین رکھتے ہیں۔


یاد رہے کہ نیب سربراہ نے گزشتہ30 ماہ کے اندر جہاں مختلف شکایات کا نہ صرف نوٹس لیا بلکہ تحقیقات کے بھی احکامات صادر کئے۔ جن میں پنجاب میں پبلک لمیٹیڈ 56 کمپنیوں،435 آف شور کمپنیر، فیک کرنسی اکاونٹس شوگر، چینی اور ادویات کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جعلی نجی ہاوسنگ سوساٹیوں/کوآپریٹو سوسائٹیوں کی طرف سے عوام کی لوٹی گئی اربوں روپے کی رقوم کی واپسی شامل ہے۔

اسکے علاوہ مضاربہ/مشارکہ سکینڈل میں 45 ملزمان کی گرفتاری کے علاوہ اشتہاری اور مفرور افراد کی گرفتاری شامل ہے۔ اس کے علاوہ جسٹس جاوید اقبال ہر ماہ کی آخری جمعرات کو نیب کے دروازے عوام کیلئے کھولتے اور کھلی کچہری لگاتے ہیں تا کہ وہ عوام کی بدعنوانی سے متعلق شکایات خود سنیں۔
 اب تک 3500 شکایت کنندگان سے کھلی کچہری میں چیئرمین نیب نہ صرف مل چکے ہیں بلکہ اب نیب کے تمام ریجنل بیوروز کے ڈی جی بھی عوم کی شکایت ہر ماہ کی آخری جمعرات کو سنتے ہیں۔

علاوہ ازیں موصوف نے نیب ہیڈکوارٹرز میں گزشتہ 30ماہ کے اندر 29 ایگزیکٹو بورڈ میٹنگز کا اجلاس بلایا۔
 اکثر حلقوں کے نزدیک نیب سارک ممالک کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔واضح ہوکہ پاکستان سارک انٹی کرپشن فورم کا پہلا چیئرمین ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے اپنے منصب کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کیلئے ”احتساب سب کیلئے“ کا جو عزم کیا تھا اس پر وہ زیروٹالیرنس اور خود احتسابی کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔


قومی احتساب بیورو کے سربراہ کی قیادت میں نیب نے جو نمایاں کامیابیاں حاصل کیں ہیں وہ قومی احتساب بیورو کے افسران کی انتھک محنت اور ٹیم ورک کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے اپنی تعیناتی سے اب تک حکومت اور اپوزیشن کی تفریق کیئے بغیر میرٹ، ایمانداری اور کسی پریشر کو خاطر میں لائے بغیر کرپٹ عناصر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی ہے، وہ نہ کسی کے ساتھ نرمی برتتے ہیں اور نہ ہی کسی کے ساتھ زیادتی پر یقین رکھتے ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ کسی بھی مقدمہ میں ضمانت مذکورہ مقدمہ کا منطقی انجام نہیں ہوتا۔ نیب نے، جن مقدمات میں ملزمان کی ضمانت ہوئی ہے ان کی ضمانت کے فیصلوں کے مصدقہ نقول کے حصول کے بعد معزز عدالتوں میں اپیلز دائر کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ زیر سماعت مقدمات کو قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ نیب پاکستان سے بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے بھرپور کوششیں کر رہا ہے ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ اور بدعنوانی سے پاک پاکستان کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک ہم سب مل کر بدعنوانی کے ناسور کے خاتمہ کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کریں گے۔

امید کی جانی چاہہے کہ پاکستان کا یہ قابل فخر ادارہ اسی عزم کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیتا رہے گا ۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق نیب کا ادارہ چند معاملات میں تسلی بخش نتائج حاصل نہیں کر پایا مگر امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں مذکورہ کوتاہیوں پر بھی مکمل طور پر قابو پا لیا جائے گا تاکہ وطن عزیز سے بدعنوانی کا جڑ سے خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :