بڑھتی گلو بل وارمنگ۔کیسے قابو پایا جائے؟

ہفتہ 20 فروری 2021

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ حالیہ برسوں میں جس لفظ کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے وہ ہے گلوبل وارمنگ۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو زمین کے اوسط درجہ حرارت میں بتدریج اضافے کا نام گلوبل وارمنگ ہے۔بجا طور پر ہمارے ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟۔وہ کونسے عوامل اور عناصر ہیں جو گلوبل وارمنگ کا باعث بن رہے ہیں؟۔


ماہرین کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ہماری زمین کے ماحول میں کچھ ایسی گیسز پائی جاتی ہیں جو کے دیرپا رہتی ہیں۔یہ گیسز قدرتی طور پر نہیں بلکہ زمین پر ہونے والے مختلف قسم کے عوامل کے نتیجے میں ہماری آب و ہوا کا حصہ بنتی ہیں۔ ان میں خاص طور پر کاربن ڈائی اکسائیڈ‘میتھین اور کلوروفلورو کاربن ہیں جن کے آب وہوا میں شامل ہونے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔

(جاری ہے)

ہوا میں ان گیسز کے اضافے کی ذمہ داری بھی کافی حد تک ہم انسانوں پر ہی آتی ہے۔حیاتیاتی ایندھن کو جلانے‘درختوں کی کٹائی اور صنعتی انقلاب کا دور شروع ہوتے ہی کاربن ڈائی اکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے اور کاربن ڈائی اکسائیڈ کا ماحول میں بلاروک ٹوک اضافہ ایسی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے جنھیں بدلا نہیں جاسکتا۔
اس کے علاوہ اے سی‘ریفریجرٹر ز وغیرہ سے خارج ہونے والی گیس کلوروفلوروکاربن زمین کے کرہ ارض سے اوزون کی تہ کو تباہ کرنے کا باعث بن رہی ہے جو کہ سورج سے نکلنے والی شعاعوں کو اپنے اندرجذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

غرض زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا ذمہ دار بہت حد تک انسان اور اسکی ایجادات ہی ہیں۔گلوبل وارمنگ سے دنیا کے بعض حصوں میں خشکی اور بعض میں نمی کی مقدار میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔جس کی وجہ سے دنیا کے اکثر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے ان میں موسم گرما میں گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔پاکستان میں اگر گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والے اثرات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کا حصہ گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والی گیسز کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن گلووارمنگ پر قابو پانے کیلئے کم ٹیکنالوجی کے باعث یہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے۔

اس کے باعث پاکستان کے سلسلہ کوہ ہمالیہ میں گلیشیرزکے پگھلنے سے پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافے کا خطرہ ہے۔جس سے بارشوں کے دوران ساحلی علاقوں میں سیلاب آنے کا اندیشہ ہوسکتاہے۔درجہ حرارت کے بڑھنے سے پاکستان کے بنجر اور نیم بنجر علاقوں میں زرعی پیداور متاثر ہورہی ہے۔علاوہ ازیں آب وہوا میں ہونے والی تیزتبدیلی سے جنگلات میں پودوں اور درختوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

گلوبل وارمنگ سے ہونے والے ان تمام نقصانات کی وجہ سے پاکستان میں خواراک اور توانائی کی سلامتی کو خطرہ درپیش ہے۔آب وہوا میں ہونے والی اس تبدیلی سے خشک سالی‘سیلاب اور لینڈسلائیڈنگ جیسی قدرتی آفات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جن کو روکا تو نہیں جاسکتا لیکن ان سے ہونے والے نقصانات سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اپنائی جاسکتی ہیں جن کا وقت سے پہلے اپنانابہت ضروری ہے۔

یہاں یہ امر بھی خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ گلوبل وارمنگ سے جنگلات میں آتشزدگی کا امکان بڑھ گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کے بڑھتے درجہ حرارت کے باعث دنیا بھر میں جنگلات کی آتشزدگی، سیلاب اور خشک سالی کا امکان بڑھ گیا ہے اور اگر تناظر میں نقصان دہ گیسوں کے اخراج پر بھی کسی نہ کسی طرح قابو پالیا جائے تو بھی قدرتی آفات کا امکان کم نہیں ہوگا۔

یہ تحقیق آب و ہوا کے 50 مختلف ماڈلز کے تجزیے کی بنیاد پر کی گئی ہے جن میں گرین ہاؤس یا زہریلی گیسوں کے اخراج کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔سائنسدانوں نے اس مطالعے کے ذریعے اگلی دو صدیوں کے دوران زمینی آب و ہوا کے تغیر و تبدل کو جاننے کی کوشش کی ہے۔یونیورسٹی آف برسٹل سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق میں کرہ ارض کے بڑھتے درجہ حرارت اور قدرت نظام زندگی کی تباہ کاری میں براہ راست تعلق پایا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہمیں زہریلی گیسوں کے اخراج پر قابو پانا ہوگا تاکہ آب و ہوا کی خطرناک تبدیلی سے بچا جاسکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خطرناک آب و ہوا کیا ہے۔اس سلسلے میں موسمیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی تحقیق میں خطرناک آب و ہوا کے لیول یا سطح کی وضاحت کی ہے اور کہا ہے کہ درجہ حرارت میں 3 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ فضا میں کاربن کی مقدار کافی زیادہ بڑھا دیتا ہے جوگلوبل وارمنگ کی بنیاد ہے۔

تحقیق کے مطابق جن علاقوں میں جنگلات کی بدترین آتشزدگی کی پیشن گوئی کی گئی ہے ان میں ایشیاء اور یورپ کے بعض ممالک، مشرقی چین، کینیڈا اور ایمیزون کے جنگات شامل ہیں۔دوسری جانب مغربی افریقہ، جنوبی یورپ اور امریکہ کی مشرقی ریاستوں میں خشک سالی کا خدشہ ہے۔ناقدین نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ چونکہ آب و ہوا کے ماڈل مستقل طور پر تبدل کا شکار ہیں اس لیئے ان سے حتمی نتائج اخذ نہیں کیئے جاسکتے اور اس میں غلطی کا امکان زیادہ ہے۔ متعلقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ ان کی تحقیق ماحول کی بہتری کے لیئے کیئے جانے والے اقدامات میں مددگار ثابت ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :