مودی کا جنم دن اور بابری شہادت

بدھ 23 ستمبر 2020

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

 یہ امر خاصا دلچسپ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم 17ستمبر کو پورے 70برس کے ہو گئے اسی پس منظر میں راہول گاندھی نے انہیں جنم دن کی مبارکباد دی ۔یاد رہے کہ دو ماہ قبل جب چینی فوج نے بھارت کی دھلائی کی تھی اور انڈین آرمی کرنل ’سنتوش بابو ‘ سمیت 20بھارتی فوجی مارے گئے تھے تو اپنے ٹویٹ میں راہول نے مودی کو ’ سرنڈر مودی‘قرار دیا تھا۔

اس کے بعد سے لگاتا ر اپنے ٹوئیٹس کے ذریعے موصوف بھارتی وزیر اعظم کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور سچ کو بہر حال ظاہر ہونا ہوتا ہے اسی لیے تو یہ حقیقت ایک بار پھر عیاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ بھارتی حکمرانوں کا اوڑنا بچھونا ہی جھوٹ ہے لہذا جھوٹ پر مبنی یہ دھندا کچھ دیر کے لیے تو شائد چل سکتا ہے مگر آخرکار اس کا پردہ چاک ہونا ہی ہوتا ہے تبھی تو چندروز قبل ’بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ ‘کو لوک سبھا میں اس امر کا اعتراف کرنا پڑا کہ تاحال 38.000 ہراز مربع کلو میٹر سے زیادہ رقبہ چین کے قبضے میں ہے۔

(جاری ہے)

علاوہ ازیں لداخ کے بہت سے علاقوں میں بھارتی فوج کو شکست کا مزہ چکھنا پڑا ۔غیر جانبدار ماہرین کے مطابق اصل بات تو یہ ہے کہ دہلی کے حکمران ٹولے نے ابھی بھی جنوبی تبت کے علاقے یعنی مقبوضہ ارونا چل پردیش پر غاصبانہ تسلط جمایا ہوا ہے ۔ اسی سلسلے کی کڑی یہ بھی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت کو ایک بار پھر منہ کی کھانی پڑی اور اجیت ڈوال کو دم دبا کر بھاگنا پڑاکیوں کہ پاکستانی نقشے پر اعتراض کو روس سمیت سبھی رکن ملکوں نے مسترد کر دیا ۔

یاد رہے کہ رواں ہفتے میں ہی بھارت نے کوشش کی تھی کہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے نکالنے کی سعی کی جائے مگر اس ضمن میں بھی بھارت کی وہ درگت بنی جو اسے صدیوں یاد رہے گی ایسے میں بھارتی فوج کے ریٹائرڈ میجر” گورو آریا“کی باتوں کو یاوہ گوئی سے زیادہ کیا اہمیت دی جاسکتی ہے۔اس تما م پس منظر میں سنجیدہ حلقوں نے غالبا صحیح کہا ہے کہ لگتا یہی ہے کہ آر ایس ایس اور مودی نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں حاصل کیا ۔

اب اسے جنوبی ایشیاء کی بدقسمتی قرار دیا جائے یا حالات کی ستم ظریفی کہ تمام جنوبی ایشیائی ممالک کی زمینی یا سمندری حدود بھارت سے متصل ہیں جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہلی سرکار کی ہمیشہ سے یہ شعوری کوشش اور خواہش رہی ہے کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہ ہو سکے اور تمام ہمسایے کسی نہ کسی طور بھارت کے دستِ نگر رہیں۔حالانکہ ”کلبھوشن یادو “ جیسے دہشتگرد کی گرفتاری کے بعد بھی اگر دہلی اور این ڈی ایس اپنی پارسائی کے دعوے سے باز نہ آئیں تو اسے جنوبی ایشیاء کی بد قسمتی کے علاوہ بھلا دوسرا نام کیا دیا جا سکتا ہے مگر آفرین ہے بھارتی حکمرانوں اور این ڈی ایس پر کہ اپنی شرانگیزیوں پر بجائے نادم ہونے کے وہ اپنی چالبازیوں سے باز آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔

یہ امر خصوصی تو جہ کا حامل ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں مودی کے یوم پیدائش کو بے روزگاوں کے عالمی دن کو منایا گیا اور اس موقع پر 39لاکھ لوگوں نے اپنے ٹوٹیس کے ذریعے ان پر ”پھٹکار “لگائی۔ دوسری جانب بابری مسجد شہادت کیس میں لکھنئو میں واقع سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن کی خصوصی عدالت 30 ستمبر کو فیصلہ سنائے گی۔ بھارتی عدالت نے اس مقدمہ کے تمام 32 کلیدی ملزمان سے کہا ہے کہ وہ فیصلے کے وقت عدالت میں حاضر رہیں۔

واضح رہے کہ ملزمان میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے سینئر رہنما ایل کے ایڈوانی، اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ اور سوامی چمیانند شامل ہیں۔ فیصلہ سی بی آئی کے خصوصی جج ایس کے یادو سنائیں گے، اس سے پہلے 22 اگست کو مقدمے کی سٹیٹس رپورٹ دیکھنے کے بعد بھارتی جج نے سماعت مکمل ہونے کی آخری تاریخ میں ایک ماہ کی توسیع (30 ستمبر) کر دی تھی۔

سماعت کے دوران سی بی آئی نے ملزمان کیخلاف 351 گواہان اور 600 کے قریب دستاویزات پیش کئے۔ سی بی آئی 400 صفحات پر مشتمل تحریری مباحثہ پہلے ہی داخل کر چکی ہے۔ واضح رہے کہ خود کو ہندو دھرم کا سیوک کار کہنے والے ان ہندو انتہا پسندوں نے 6 دسمبر 1992 کو بابر ی مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ بابری مسجد شہادت کیس میں ہندوستانی عدالت کا فیصلہ 28 سال بعد سامنے آ رہا ہے۔

6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد معاملے میں کل 49 ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔ باقی 147 ایف آئی آرز الگ مواقع پر صحافیوں، فوٹو گرافرز، انسان دوست دانشوروں نے درج کرائی تھیں۔ 5 اکتوبر 1993 کو سی بی آئی نے تفتیش کے بعد اس معاملے میں 49 ملزمان کیخلاف چارج شیٹ داخل کی تھی، ان میں سے 17 کی موت تو اس طویل ترین سماعت کے دوران ہو چکی ہے۔ اسی بابت تو غالبا کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ برہمنی انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق غالبا ان سبھی جنونی ہندو راہنماوں کو رہا کیا جائے گا مگر اس کے دیر پا نتائج کیا نکلیں گے اور بھارتی سالمیت کو کیسے متاثر کریں اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :