بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور چین کا کرارا جواب !

منگل 8 ستمبر 2020

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

ایک طرف دہلی سرکار ہے جو اپنی منفی روش کے عین مطابق وطن عزیز کے خلاف گھٹیا سازشیں بدستور جاری رکھے ہوئے ہے ۔دوسری جانب بی جے پی کے تمام تر بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود بھارت کو سفارتی اور سیاسی محاذ پر مسلسل پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔اسی تناظر میں 31 اگست کو لداخ سیکٹر میں بھارت کی دراندازی کے بعد چین نے انڈیا کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ان علاقوں سے اپنے فوجیوں کو فوراً واپس بلائے ۔

چین نے کہا ہے کہ ’ بھارت سر حدی فوجیوں کو قابو میں رکھے، ایل اے سی کی اشتعال انگیز خلاف ورزی بند کرے اور ان علاقوں سے اپنے فوجیوں کو فورا واپس بلائے جہاں انھوں نے دراندازی کی ہے۔ یاد رہے کہ پیر کو انڈیا کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ انڈیا نے پینگونگ سو جھیل کے جنوبی کنارے پر انڈین زمین پر قبضہ کرنے کی چینی کوشش کو پسپا کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

دلی میں چینی سفارتخانے کی طرف سے جاری کیے گئے سخت بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈین فوجیوں نے پینگونگ سو جھیل کے جنوبی کنارے پر درہ ریکین کے نزدیک ’غیر قانونی طور پر ایل اے سی کی خلاف ورزی کی ہے‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 'انڈیا کی اس حرکت سے چین کے اقتدار اعلیٰ کی گمبھیر خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کے لیے جو معاہدہ طے پایا تھا اس کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

انڈیا کے اس قدم سے انڈیا چین سرحد پر امن وامان کی کوششوں کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ بیجنگ میں چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا شویینگ نے نیوز کانفرنس میں انڈیا پر الزام لگایا ہے کہ اس کے فوجیوں نے پینگونگ سو جھیل کے جنوبی کنارے پر چینی اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی کی۔
انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انڈیا کو متنبہ کر دیا ہے ۔ہوا شویینگ کا مزید کہنا تھا کہ ’ چین نے کبھی بھی جنگ کو ہوا نہیں دی ہے اور نہ کسی کی زمین پر قابض ہوا ہے۔

چین کے فوجی ایل اے سی کے قوانین کی کی سختی سے پابندی کرتے ہیں اور کبھی بھی یہ لائن پار نہیں کرتے۔
 ماہرین کے مطابق انڈیا نے جو کیا ہے وہ صورتحال کو معمول پر لانے کی باہمی کوششوں کے منافی ہے اور اس سے چین اور بھارت میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا ۔
 اسی تناظر میں چین نے انڈیاکو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وہ سرحد پر تعینات اپنے فوجیوں کو قابو میں رکھے، باہمی مفاہمت پر عمل کرے، سبھی اشتعال انگیز اقدامات پر پابندی لگائے ۔


غیر جانبدار حلقوں کے مطابق چین کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب پینگونگ جھیل کے دونوں کناروں پر انڈین اور چینی فوجیوں میں ایک بار پھر ٹکراؤ کی صورتحال ہے۔ یاد رہے کہ انڈیا کی وزارت دفاع نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ انڈیا نے جھیل کے جنوبی کنارے پر انڈین زمین پر قبضہ کرنے کی چینی فوجیوں کی کوشش کو پسپا کر دیا ہے۔

بیان میں مزید گہا گیا تھا کہ اس ٹکراؤ کے بعد اس خطے میں انڈین فوج نے اپنی پوزیشن کافی مستحکم کر لی ہے۔انڈین میڈیا نے پینگونگ کے تازہ ترین ٹکراؤ کے بعد مشرقی لداخ میں زبردست کشیدگی کی خبر دی ہے جن کے مطابق ہفتے کی شب چوشل کے نزدیک ہونے والی جھڑپ کے بعد دونوں جانب بھاری تعداد میں فوجی تعینات کر دیے گئے ہیں۔ایل اے سی کے دونوں جانب افواج بھاری توپوں اور ٹینکوں کے ساتھ پوری طرح چوکس ہیں۔


 عسکری ماہرین کے مطابق چوشل علاقے میں صورتحال بہت کشیدہ ہے۔ چینی فوجی بہت جارحانہ موڈ میں ہیں اور انڈین فوجیوں کو پیچھے ہٹانے کے لیے وہاں بھاری کیلیبر کے ہتھیار کھڑے کر دیے ہیں۔ انڈیا نے بھی چینی پیش رفت کو پسپا کرنے کے لیے سپیشل فرنٹئیر فورس تعینات کر دی ہے اور ایل اے سی کے نزدیک بھاری ہتھیار نصب کر دیے ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گذشتہ جون میں پینگونگ جھیل کے نزیک وادی گلوان میں دونوں افواج کے درمیان ایک خونریز چھڑپ میں 20 انڈین فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

اس ٹکراؤ کے بعد چین نے جھیل کے شمالی کنارے پر اپنی پوزیشن سے آٹھ کلومیٹر دور تک اس علاقے پر قبضہ کر لیا ہے جسے انڈیا اپنا علاقہ تصور کرتا ہے۔چین نے اس خطے میں ہزاروں فوجی ٹینک، موبائل راکٹ لانچر اور دوسرے بھاری ہتھیار جمع کر رکھے ہیں۔ سیٹیلائٹ تصاویر میں اس خطے میں بڑے پیمانے پر کیمپوں اور فوجی عمارتوں کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔

چین نے بھارتی جارحیت کے بعد کئی دوسرے علاقوں میں بھی انڈین زمین پر قبضہ کر لیا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ وہ علاقے اس کی ملیکت ہیں۔انڈیا اور چین کے فوجی اہلکار ایل اے سی پر کشیدگی کم کرنے کے لیے گذشتہ جون سے فوجی اور سفارتی سطح پر نو راؤنڈز کے مذاکرات کر چکے ہیں لیکن بھارت کی جارحیت اور ہٹ دھرمی کے نتیجے میں تا حال کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔


انڈیا کا مطالبہ یہ ہے کہ چین ٹکراؤ سے پہلی والی پوزیشن پر واپس چلا جائے۔ لیکن چین اب پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ اس نے اب کئی نئے علاقوں پر دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے۔انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ 'اگر چین سے مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو اپنی زمین واپس لینے کے لیے انڈیا کے پاس عسکری راستہ کھلا ہوا ہے۔

غیر جانبدار مبصرین نے کہا ہے کہ شائد انڈیا نے وادیِ گلوان کے ٹکراؤ سے سبق نہیں سیکھا۔ بھارت کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ چین کسی بھی صورتحال کے لیے تیار ہے۔ انڈیا اگر چین کے ساتھ پر امن رہنے پر یقین رکھتا ہے تو اس کا خیر مقدم ہے۔ اگر انڈیا جنگ کا متمنی ہے تو چینی فوج اسے 1962 سے بھی بدتر شکشت فاش دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ چین انڈیا سرحدی ٹکراؤ اور اس سے متعلق کئی چھوٹے بڑے مسئلے ابھی جاری رہیں گے۔

’ان اختلافات کو پر امن طریقے سے بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا سبھی کے مفاد میں ہے۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ اگر عالمی برداری کو علاقائی اور عالمی امن مقصود ہے تو پھر انہیں بھارتی جنونیت اور توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنا ہوگا کیوں کہ چین بہر صورت اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :