بدلتی معیشت اوربدلتے ساتھ!(سوویت یونین تا چیین)

بدھ 9 جون 2021

Hamza Sheryar Mehboob

حمزہ شہریار محبوب

اخلاقی اقدار،سماجی طور طریقے، تہزیب و تمدن کسی بھی معاشرے کی پہچان کے بنیادی جزو ہیں۔ مگر معاشی حالات انہی بنیادی اجزا کی تشکیل کے محرکات بنتے ہیں۔ کسی ملک کی معاشی ترقی کا انحصار اس ملک کی جغرافیاٸی حیثیت،پڑوسی ممالک اور زرمبادلہ کے ذخاٸر پر منحصر ہوتا ہے۔ مگر گزشتہ صدیوں میں جغرافیاٸی حیثیت،پڑوسی ممالک اور زرمبادلہ کے ذخاٸر کے علاوہ کسی ملک کی معیشت کا تعین اس کے معاشی و سیاسی نظام اور دوست ممالک و دنیا کی طاقتور قوتوں کے اثر اور ان سے تعلقات سے کیا جانے لگا۔

جیسا کہ، کمیونسٹ نظام کی حامل سوویت یونین، کیپیٹل ازم پر مبنی امریکہ یا سوشلسٹ نظام کی حامل چین۔
سوویت یونین کا کمیونسٹ نظام برصغیر میں بھارت جبکہ ازبک،تاجک،کرغیرستان و دیگر ریاستوں کو اپنے زیر اثر لایا۔

(جاری ہے)

1980 کی دہاٸی میں سوویت یونین کے افغانستان میں پٍٹ جانے سے یہ نظام اور اس کے زیر اثر ممالک اپنی اپنی جداگانہ راہ پر گامزن ہوۓ۔


 لیکن پھر امریکی جاگیر داانہ نظام نے دنیا کو جھکڑ لیا۔ پاکستان اولین برسوں سے ہی امریکی اثر کے تابع ہوا. جس کا آغاز لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے ہوا۔ یاد رہے ان ادوار میں سوویت یونین طاقتور،امریکہ مضبوط اور چین نے  معاشی ترقی کی  راہ پر نٸے نٸے قدم رکھے تھے۔ یوں سوویت یونین کے بعد امریکہ مضبوط تر ہوتا گیا۔
جنگی عزاٸم اور لابنگ سے افغانستان،پاکستان،شام،لیبیا،عراق کو اپنے تابع کیا جبکہ معاشی لین دین سے سعودی عرب،بھارت ، امارات و دیگر ممالک کو اپنے کیمپ میں شامل کیا۔

مگر ان دو طاقتوں کے عروج و اثر اندازی کے ان ساٹھ ستر سالوں کے دوران چین کثیر افرادی قوت کی بنیاد پر سستی اشیا فروخت کرنے والا ملک بن کر مقبول ہوتا گیا۔ گزشتہ کچھ سالوں سے امریکہ چین مقابلہ جاری ہے.
مگر اب چین اپنے لاٸحہ عمل سے سبقت لے چکا ہے۔ گویا اب چین طاقتور ترین ملک بن چکا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ چین نے لاٸحہ عمل مثالی اپنایا، دوم یہ کہ امریکہ مفاد پرستی کی بنیاد پر مختلف ممالک سے تعلقات استوار و ختم کرتا رہا اور یہ ممالک اس سے دور ہوتے گٸے۔

یوں پاکستان بھی امریکی کیمپ سے نکل کر چینی کیمپ میں داخل ہو چکا ہے۔ اور اس کی ایک مثال گوادر بندرگاہ کی تکمیل اور پاک چین اکنامک راہداری(CPEC)  کی تعمیر و مختلف اکنامک زونز کی تکمیل اور انرجی سیکٹر میں شراکت داری ہے۔ جبکہ اسی منصوبہ سے چین اپنی مصنوعات کو کم خرچ میں پاکستانی بندرگاہ سے خلیجی ممالک تک ترسیل قاٸم کرنے کے قریب ہے۔ یاد رہے چین کے گزشتہ بحری راستوں ہر کوریا،جاپان کے امریکی حلیف ہونے کی موجودگی کٸی مساٸل کے اسباب تھے،جبکہ خلیجی ممالک تک مصنوعات پہنچانے کا یہ طویل و زیادہ خرچ والا راستہ تھا۔

سیپیک کی تعمیر سے چین ان مساٸل سے چھٹکارہ ہونے کو ہے۔  
علاوہ ازیں چین کے ون بیلٹ ون روڈ()روڈ منصوبہ کو لے لیجیے،چین اس راہدرای سے روس،منگولیہ آزاد ریاستوں سے کہیں آگے اسپین تک اس بیلٹ کے زریعہ تجارت کرنے کا لاٸحہ عمل اپنا چکا ہے۔ علاوہ ازیں افریکی ممالک میں جبوٹی کے مقام پر اکنامک زون فنکشل ہو چکا ہے۔ چین کو دور حاضر میں میں ایک چیلنج اس کے افراد کی عیش و عشرت اور بہتر ہوتا لاٸف سٹاٸل ہے۔

کیونکہ چینی اب کم تنخواہ پر کام کرنے کو ترجیح نہیں دیتے،بوجہ جس کے سستی اشیا کو بنانا و فروخت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یاد رہے یہ وہی افراد ہیں کہ جن کی سستی  لیبر کاسٹ کی بنیاد پر چین نے سستی پیدوار کر کے اور سستی فروخت کر کے مختلف ممالک کو راغب کیا تھا۔ مگر چین نے اب اس کا حل غریب ممالک کے افراد کے ذریعہ نکالا ہے۔ اور افریکی ممالک میں اکنامک زونز اور صنعتوں کی تشکیل ہے۔

تعجب تو یہ کہ امریکہ بھی چین کی مصنوعات لیتا ہے۔ امریکی یوم آذادی پر لہرائےگئے  پرچم بھی چین کی ہی پیدوار ہوتے ہیں۔
 
چین نے پاکستان،روس، آزاد ریاستوں یورپی ممالک، اور افریقی ممالک کو بہترین انداز سے اپنےساتھ جوڑ لیا ہے۔ جبکہ بھارت بھی پڑوسی ملک ہونے کے ناطے معاشی طور پر ساتھ شامل ہونے کا خواہاں ہے۔ المختصر یہ کہ سوویت یونین کا خاتمہ، امریکی اثر اندازی کم اور چین تیزی سے ابھرتی ہوٸی معیشت ہے۔

۔
 لیکن بطور پاکستانی ضرورت اس امر کی ہے کہ آٸندہ برسوں میں پاکستانی سرمایہ کار چین اور بزریعہ چین اس سے منسلک تمام ممالک سے تعلقت استوار کر کے ان منصوبوں سے مستفید ہوں اور حکومت اس کو ترغیب دے۔ وگرنہ چین پر کُلی انحصار مختلف مساٸل کا موجب بن سکتا ہے۔ کیونکہ معاشی متحاجی و مجبوری پاکستان کو چین کی ایسٹ انڈیا  کمپنی بنا سکتا ہے۔ لہذا اس ابھرتی قوت یعنی چین کے کیمپ میں شامل ہونے کے فواٸد حاصل کرنا، ان میں شامل منصوبوں سے مستفید ہونا اور ساتھ ہی اپنی تہزیب،تمدن اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت لازم و ملزوم ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :